۴)اگر مطلب سمجھنے کا مانع تعقید لفظی (۱)ہے، تو قوانین نحو کو پیش نظر رکھو۔ اور اگر تعقید
ـ وُجِدَ القَتِیلُ فیْ مَحلۃٍ، لایُعلمُ مَن قَتلہٗ اُستحلِفَ خَمسُونَ رَجُلا مِنھُمْ۔ الخ، وَوَجْہُہٗ أَنَّ القِیاسَ یأباہٗ۔۔۔۔۔۔ وَفِي الاِستحْسَانِ تَجِبُ القِیاسُ۔
پھر صاحبِ ہدایہ ص:۶۴۲ پر متن میں اِس کا تذکرہ اِس طور پر کرتے ہے: قالَ القُدوريْ: م: وَاِنْ اِدَّعَی الوَليُّ علی وَاحِدٍ مِن أَھلِ المَحلۃِ بِعینِہِ لمْ تَسقطِ القَسامَۃُ عَنھمْ وَقدْ ذَکرْنَاہٗ، ش: وَذکرْنا فِیہَا القیاسَ وَالاستحسَانَ۔
محشی فرماتے ہے: ھٰکذا (وَلوْ اِدعیٰ عَلی البَعضِ بِأعیانِھمْ أَنّہُ قتلَ ولیَّہ الخ)فی بَعضِ النُّسَخِ، وَاختارَہٗ صاحبُ العِنایَۃِ۔ وَفِي بَعضِ نُسخٍ: وَلَو اِدَّعَی عَلی البَعضِ بأعْیانِھمْ، سَنَذکرُہٗ مِن بعدُ إِنْ شائَ اللہُ تَعالی، انتھیٰ۔ وَاختارَہٗ صَاحبُ الکفایَۃِ وَقالَ: إنَّ ھٰذہِ نُسخۃٌ مُتقِنۃٌ؛ وَلٰکنْ یَرِدُ علیہِ أَنَّہٗ وَعَدَ بَیانَہٗ ثُمَّ فِي المَوضعِ الذِيْ وَعَدَ بَیانَہٗ فیہِ قالَ: وَقدْ ذکرْنا فیہِ القِیاسَ وَالاِستحسانَ۔ فَتَدَبَّرْ (ہدایہ ۴؍ ۶۳۶، ۶۴۲)
گویا ایک نسخہ میں فکذلک الجواب سے مسئلہ واضح کردیا ہے، پھر اس کے بابت وذکرنا فیہا القیاس والاستحسان ذکر کیا ہے۔ جب کہ بعضے نسخوں میں پہلے موقع پر سنذکرہ کا وعدہ ہے، پھر دوسری جگہ وقد ذکرنا کی عبارت ہے، جو مخل ہے۔
(۱)التعقید اللفظی: ھُوَ أَنْ یَکونَ الکلامُ خَفِيَّ الدَّلالۃِ عَلَی المَعنَی المُرادِ، إِمَّا بِسَببِ تَقدیمٍ أوْ حَذفٍ أوْ إِضْمارٍ أوْ فَصلٍ۔ کقولہ:
جَفَخَتْ وَھُمْ لاَ یَجْفَخُوْنَ بِھَا بِھِمْ
شِیَمٌ عَلَی الحَسَبِ الاَغَرِّ دَلاَئِلُ
تقدیر البیت: جَفخَتْ (فَخرتْ) بِھمْ شِیمٌ دَلائلُ عَلی الحَسَبِ الاَغَرِّ ، وَھمْ لایَجْفخوْنَ بِھَا۔
تعقیدِ لفظی: یہ ہے کہ کلام کی ترکیب میں تقدیم، حذف، اضمار یا فصل سے خلل واقع ہو، جیسے: متنبی کا شعر: فخر کرتی ہیں اُن پر ایسی خصلتیں جو شریف نسب ہونے پر دلیلیں ہیں ، اور وہ لوگ اُن خصلتوں پر فخر نہیں کرتے۔ اِس شعر میں جَفَخَتْ فعل اور شِیَمٌ فاعل کے درمیان نیز شیم موصوف اور دلائل صفت کے درمیان فصل کردیا گیا ہے، جس سے شاعر کی مراد سمجھنا دشوار ہوگیا ہے۔ ومنہٗ قولُ الشاعرِ:
إِلَی مَلِکٍ مَا أُمُّہٗ مِنْ مُحَارِبَ
أَبُوْہٗ وَلاَ کَانَتْ کُلَیْبٍ تُصَاھِرُہٗ
حاصلہ: أَسوْقُ مَطِیَّتِي إِلی مَلِکٍ أَبُوْہٗ لَیْسَتْ أُمُّہٗ مِن مُحاربَ۔
ترجَمہ: مَیں اپنی سواری کو لے جاتا ہوں ایسے بادشاہ کی طرف کہ اُس کی دادی کا تعلق محارب سے نہیں ہے اور نہ کلیب اُس کا کفو ہے۔
التعقید المعنوی: ھوَ أَنْ یکونَ الکلامُ خَفِيَّ الدَّلالَۃِ عَلی المَعنَی المُرادِ، إِمَّا بِسَببِ مَجازاتٍ وَکِنایاتٍ بَعیدَۃٍ لایُفھَمُ المُرادُ بِھا، نحوُ: نَشَرَ المَلِکُ أَلْسِنَتَہٗ فِي المَدینَۃِ (مُراداً بِھا جَواسِیسَہٗ)، والصَّوابُ’’نَشَرَ عُیُوْنَہٗ‘‘؛ لأنَّ(اللفظ) الذيْ یُطلقُ عَلَی الجَاسُوسِ مَجازا ھُوَ ’’العَینُ‘‘ إذْ ھيَ المَقصودۃُغ