کرے، اور علمِ فلسفہ، ہند سہ اور کلام میں اِن براہین ودلائل سے کوتاہی نہ کرے، اگر کتاب میں دلائل نہ بھی ہوں تو اپنی طرف سے اِعتراض بنائے، پھر اُس کا دفعِیّہ کرے، پھر اِس پر دوسرا اشکال وارد کرے، اور اُس کا دفعِیّہ کرتا رہے، جب تک ذہن چلتا رہے علیٰ ہذاالقیاس۔
۴) طالب کو چاہیے کہ علم، عالم، شریک فی الدرس اور کتابوں کی بے حد تعظیم کرے۔
۵)اپنے استاذ کا احترام کرے، فَمَنْ تَأَذّیٰ مِنْہٗ اُسْتَاذُہُ، یَحْرَِمُ بَرَکَۃَ العِلْمِ وَلاَ یَنْتَفِعُ بِہٖ اِلاَّ قَلِیْلاً۔
۶)والدین اور تمام مسلمین کے حقوق پر استاذِ محترم کے حق کو مقدم سمجھے۔
۷)اخبار، رَسائِل وغیرہ دیکھنے سے رُکے۔
۸)اول سے آخر تک مسائل کو ذہن میں روزانہ لوٹاتارہے۔
۹)کسی علم کو پڑھ کر یہ نہ سمجھ بیٹھے کہ بس مجھے اِس قدر کافی ہے، زیادہ کی ضرورت نہیں ، وَذٰلِکَ طَیْشٌ یُوْجِبُ الحِرْمَانَ۔
۱۰)کسی بھی فن کو ترک نہ کرے؛ لیکن اِتنا خَیال ضرور رکھے کہ جب تک پہلا فن پختہ نہ ہو دوسرے فن کو شروع نہ کرے؛لِئَلاَّ یَصِیْرَ مُذَبْذَباً فَیَحْرُمَ مِنَ الکُلِّ۔ اور ایسا نہ ہو کہ بعضے فنون کی طرف توجُّہ کرے اور باقیوں کو بالکل ترک کردے، فذلک جہل عظیمٌ۔
۱۱)علومِ آلیہ (کالعربۃ والمنطق) کو آلہ کی حیثیت سے دیکھے، اُس میں کلام کو وسعت نہ دے۔ اور جو علوم مقصود بالذات ہیں ، جیسے: علمِ کلام، تفسیر، حدیث اور فقہ۔ اِن میں جس قدر توسُّع سے کام لے اچھا ہے۔
۱۲)مسائل پر تفریعات نکالے اور اَدِلَّہ میں غور کرے، فَاِنَّ ذٰلِکَ یَزِیْدُ طَالِبَہَا تَمَکُّنًا فِي المَلَکَۃَ۔
۱۳)جب مطالعہ کرنے کا ارادہ کرے تو پہلے ایسا مقام تلاش کرے جہاں کوئی مُخل نہ ہو، کتاب کو باادب، باوضو پکڑے، نہایت احترام کے ساتھ اُس کو سامنے رکھے، اور دو زانو بیٹھ جائے، دونوں کُہنیاں زمین پر رکھ دے، پھر مطالعہ کرے۔