فرمائیں اُسی کے موافق عمل کرے، جس طرح کہ حاذق حکیم کے پاس جب کوئی مریض جاتا ہے تو جو بھی بات وہ حکیم کہتاہے مریض اُس کے خلاف نہیں کرتا۔ نیز طالبِ علم مُستَبد بنفسہ نہ ہو، اپنی ذِہنیت، ذکاوت اور فَطانت پر اعتماد نہ کرے، تکبر نہ کرے، اور کسی بھی فن کی بُرائی نہ کرے، جیسے عام طور پر طلبائے مدارس عربیہ کی عادت ہے کہ، علمِ منطق، فلسفہ اور ریاضی کو بُرا بھلا کہہ دینے میں ذرا دَریغ نہیں کرتے؛ حالاں کہ منطق متکلمین اسلام کے نزدیک ’’اصل العلوم‘‘ ہے اور اِس میں تقویم ذِہن ہے۔
معلوم ہونا چاہیے کہ مطلقاً -ممدوح و مذموم مقدار کی معرفت کیے بغیر-علمِ فلسفہ کی مذمت کرنا بالکل بے ہودہ بات اور رجم بالغیب ہے۔ اِسی طرح علم نجوم کی علی الاطلاق مذمت کرنا صحیح نہیں ؛ اِس لیے کہ علم نجوم کے بعض مقامات سے واقف ہونا فرضِ کفایہ ہے، اور بعض سے واقفیت مباح ہے۔
اگر تسلیم کرلیں کہ واقعی یہ علوم فی حد ذاتہٖ مذموم ہیں -کما زعموا- پھر بھی اُن کی تحصیل فائدے سے خالی نہیں ، کم از کم یہی فائدہ ہے کہ، اِن علوم سے واقف ہو کر ہم اُن کے قائلین پر رد کر سکتے ہیں ، جیسے: حضرت امام المتکلمین، حجۃ العلمائامام فخر الدین رازیؒ نے یہ علم حاصل کیا، اِسی طرح رأس المتکلمین حضرت امام غزالیؒاور اِن کے ماسِوا نے بھی اِس کو حاصل کیا تھا؛ بلکہ مقدَّمۃُ الواجبِ واجبٌ کے نظریے کو مد نظر رکھتے ہوئے مَیں تو یہ کہتاہوں کہ: اِن علوم کی تحصیل واجب ہے؛ اِس لیے کہ منکرینِ اسلام پر رد کرنا ہمارا فرض ہے، اور یہ علوم اِس کے لئے بہ منزلۂ مقدمہ کے ہیں (۱)۔
ہاں ! اِتنی بات ضروری ہے کہ اِن علوم کو حاجت سے زائد پڑھنا اور اس میں تَوَغُّل کرنا، اور اِن کو بہ جائے آلہ سمجھنے کے مقصود بالذات سمجھ لینا، اور اِس میں اپنی زندگی کا اکثر حصہ
(۱) علمِ فلسفہ کی اہمیت حضرت تھانویؒ کی نظر میں : ایک شخص نے عرض کیا کہ کیا فلسفہ کار آمد چیز ہے؟
فرمایا: ہاں عمقِ نظر اور دقتِ فکر اِس سے پیدا ہوتی ہے۔ معقول وفلسفہ جس پر اعتقاد نہ ہو اور محض استعداد کے لیے پڑھایا جائے تو خدا کی نعمت ہے، اُن سے دِینیات میں بہت مدد اور معاوَنت ملتی ہے، لطیف فرق اِن ہی سے سمجھ میں آتے ہیں ۔