کے قابل ہے، مثلاً: حضراتِ ماتنین کا طرزِ تحریر، شارحین کا اندازِ استدلال، فرائضِ شارحین اور متن وشرح میں مستعمل الفاظ اور ان کی اغراضِ مخصوصہ وغیرہ دل چسپ مضامین شاملِ کتاب ہیں ؛ بلکہ یوں کہیے کہ: حضرت مصنفؒ کی یہ کتاب فنِ مطالعہ میں درِّ لاثانی ہے، اور شائقین اساتذہ وطلبہ کے لیے ایک انمول تحفہ ہے۔
لیکن افسوس!!!۔
مصنفؒ کا یہ تجدیدی کارنامہ علمی میدان میں نایاب نہیں تو کم یاب ضرور رہا۔
اصل بوسیدہ نسخہ احقر کے پاس سالہائے دراز سے محفوظ تھا، اور دیمک کی نذر ہونے کے اندیشے سے باربار اشاعت کا خیال آتا رہا؛ لیکن تقدیراتِ الٰہیہ کے نتیجے میں احقر أقدم رجلا وأؤخر أخریٰ میں مبتلا رہا، بالاٰخر یہ وقیع نسخہ رفیق محترم: مفتی ابوبکر صاحب مدظلہ کو دکھایا، تو آپ نے اور دیگر رُفقا نے اِس کے نفع کو عام کرنے کی طرف خصوصی توجُّہ دلائی، چناں چہ مخلصین ومفکِّرین کی آہِ سحرگاہی کے نتیجے میں یہ کام مَعرَضِ وجود میں آیا۔فللہ الحمد
چوں کہ اصل کتاب کی زبان کچھ نامانوس سی تھی،نیز بعضے قواعد بڑے دقیق تھے، جن کو سمجھنے کے لیے مثالوں کو بیان کرنا بھی نا گزیر تھا، عِلاوہ ازیں خود مصنف ماہرِ فن تھے جس کی وجہ سے اہم اہم نکات وقوانین کو مختصر عبارت میں تحریر فرما گئے تھے،اِن امور کی بناء پر اصل کتاب سے استفادہ بہت مشکل تھا؛ لہٰذا یہ ضرورت محسوس ہوئی کہ، اِن قوانین وضوابط کی صحیح ترجُمانی کرتے ہوئے تسہیل کی جائے، مضامین کو جدید اسلوب میں ڈھالا جائے،ترتیب کو موجودہ زمانے کے مطابق سہل اور آسان کیا جائے اور قوانین و قواعد کو امثلہ سے واضح کیا جائے۔
اصل کتاب کی افادیت کو عام کرنے کی اہم خدمت انجام دینا، اور بڑوں کی امانت کو بجنسہٖ ادا کرنا اپنی بِساط سے باہر تھا۔
کہاں میں اور کہاں یہ نِکہت گل ٭ نسیمِ صبح تیری مہربانی
تا ہم بعض مخلصین کے اِیما پر اپنی نااہلیت اور علمی بے بضاعتی کا اعتراف کرتے ہوئے متوکلاً علی اللہ تسہیل کا کام شروع کیا، دورانِ تسہیل وتحشیہ موقع بہ موقع مخلصین رُفقا سے مدد لیتا