کی وجہ کیا ہے؟
اِس کا جواب یہ ہے کہ: مصنف نے اپنی حدتِ ذہن کی وجہ سے اِس قید سے اعراض کیا ہے؛ کیوں کہ اُن کو اپنی جو دتِ طبع کی وجہ سے یہ یقین تھا کہ، طالب علم خود سیاقِ کلام یا اشارہ یا دلالت سے اِس قیدکو سمجھ جائے گا(۱)۔
یہ توجیہ تو اُس صورت میں ہو سکتی ہے جب کہ مصنف اُس فن میں انتہائی درجہ پہنچے ہوئے ہوں ، یا اُس کے قریب قریب ہوں (۲)۔
اگر مصنف کو یہ درجہ حاصل نہیں تھا تو یہ مذکورہ بالا قانونِ کلی اُن کے حق میں نہیں ہے؛ کیوں کہ ممکن ہے کہ بے چارے مصنف قید بڑھانا بھول گئے ہوں ۔ فَاِنَّ المُصَنِّفَ اِنْسَانٌ، وَالاِنْسَانُ مَحَلُّ النِّسْیَانِ؛ وَالعِلْمُ لَیْسَ بِمَعْلُوْمٍ مِنَ الطُّغْیَانِ۔ فَکَیْفَ بِمَنْ جَمَعَ المَطَالِبَ مِنْ مَجَالہا المُتَفَرِّقَۃِ۔ اور حق یہی ہے کہ کوئی کتاب ایسی نہیں ہے کہ جس کو مصنف نے مختلف مقامات سے نقل کیاہو اور اُس اصل میں عیب نہ ہو، اِنَّمَا التَّنَزُّہُ عَنْ کُلِّ عَیْبٍ
(۱)بعضے مصنفین اکثر وبیشتر کبھی صرف صغریٰ کو بیان کرتے ہیں اور کبریٰ ونتیجہ کو ذکر نہیں کرتے، جیسے: الصلح خیر، اِس کی تفصیل ’’شرح کی احتیاج اوراس کے دواعی‘‘ میں امرثانی کے ضمن میں گزر چکی ہے۔ مرتب
(۲) جیسے: صاحب الفیہ نے اسمائے ستہ مکبرہ کا اعراب ذکر کرنے کے بعد اُن کی شرائط ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ:
وشرط ذا الاعراب أن یضفن لا
للیا کجاء أخو أبیک اعتلا
ترجَمہ : اِن اسمائے ستہ مکبرہ کے لیے یہ اعراب (حالت رفعی میں واو، حالت نصبی میں الف اور حالت جری میں یا) دینے کی شرط یہ ہے کہ، اِن اسماء کو غیرِ یاء کی طرف مضاف بنائیں ، جیسے : جاء أخو أبیک اِعتلا تیرے باپ کا بھائی یعنی تیرا چچا آیا؛ حالاں کہ وہ بلند مرتبے والاہے۔ اِس پر شارح نے اِن اسماء کو یہ اعراب دینے کی کل چار شرطیں ذکر فرمائی ہیں :ذکرالنحویون لاعراب ھذہ الاسماء بالحروف شروطا أربعۃ: (أحدھا) أن تکون مضافۃ… (الثاني) أن تضاف إلی غیر یاء المتکلم…، (الثالث) أن تکون مکبرۃ…، (الرابع) أن تکون مفردۃ…۔
اِس پر نقض ہوتاتھا کہ، صاحب اَلفیہ نے بقیہ دو شرطوں کا تذکرہ کیوں نہیں کیا؟ شارح فرماتے ہیں : ہوسکتاہے کہ صاحب الفیہ نے یضفن میں ضمیر کا مرجع (جو صرف اسماء مفردہ مکبرہ ہیں ) پر ہی اکتفاء کرلیاہو۔
ویمکن أن یفھم الشرطان الآخران من کلامہ، وذلک أن الضمیر فی قولہ: ’’یضفن‘‘ راجع إلی الأسماء التي سبق ذکرھا، وھو لم یذکرھا إلا مفردۃً مکبرۃً، فکأنہ قال :وشرط ذا الاعراب أن یضاف ’’أب وإخوتہ المذکورۃ‘‘ إلی غیر یاء المتکلم۔ (شرح ابن عقیل:۵۲)