قاعدہ۳۵): کبھی کسی اعتراض کا جواب اللّٰہُمَّ اِلاَّ اَنْ یُقَالَ کہہ کر دیا جاتا ہے(۱) جب کہ جواب ضعیف ہو، اور اِسی طرح وَیُمْکِنُ، وَ یَجُوْزُ، قِیْلَ فِي جَوَابِہِ ، قَدْ یُقَالُ، اُجِیْبَ، قَدْ اُجِیْبَ، قَدْ یُقَالُ، اَجَابُوْا، قَدْ فَسَّرُوْا۔ اور اِس کے مانند تعبیرات لاتے ہیں (۲)۔
(۱)جیسے: نور الانوار کی عبارت پر محشی پکڑ کرتے ہوئے فرماتے ہیں ، جس کو سمجھنے کے لیے متن، شرح اور حاشیہ تحریر کیا جاتا ہے۔ م: وکان المہرُ مقدراً شرعاً غیرَ مضافٍ إلی العبد۔ ش: وبیانہ أن تقدیر المہر عند الشافعیؒ مفوَّض إلیٰ رأي العبادِ واختیارہم، فکلُّ ما یَصلح ثمناً یَصلح مہراً عندَہ، وعندَنا: وإنْ کانَ لایُقدرُ فيْ جانبِ الأکثرِ لٰکنْ یُقدرُ فيْ جانبِ الاقلِّ، وہوَ أن لایکونَ أقلَّ منْ عشرۃِ دراہمَ، عملاً بقولہِ تَعالیٰ: {قَدْ عَلِمْنَا مَا فَرَضْنَا عَلیْہِمْ فِيْ أَزْوَاجِہِمْ وَمَا مَلَکَتْ اَیْمَانُہُمْ} أي قدْ علمنَا ما قدَّرنا علیہمْ فيْ حقِّ أزواجہمْ ’’وہوَ المہرُ‘‘، (۱)فالفرضُ لفظٌ خاصٌّ وُضعَ لمَعنیٰ التقدیرِ، (۲)وکذلکَ ضمیرُ المتکلمِ خاصٌّ علیٰ ماقالوا (۳)و((کذا الاسنادُ خاصٌّ عندَ صاحبِ التوضیح))۔ شارح کا صاحب توضیح کی بات کو نقل کرنا کہ: اسناد بھی خاص ہے، اِس پر محشیؒ فرماتے ہیں : ولکَ أن تقولَ: أنَّ لفظَ ’’فرضنا‘‘ منْ حیثُ اشتمالہِ علی الإسنادِ مُرکبٌ فلا یکونُ خاصاً؛ لأنَّ الخاصَّ منْ أقسامِ المُفردِ ((اللّہمَّ إلاّ أنْ یقالَ)) أن المُرادَ أنّ لفظَ الفرضِ خاصٌّ من حیثُ الإسنادِ۔ ہوسکتا ہے صاحبِ توضیح کی مراد یہ ہو کہ،فرضنا اگرچہ خاص نہیں ؛ لیکن فرض کی اسناد جمع متکلم سے مراد صرف اللہ پاک کی ذات ہے، تو اس مجازی اسناد کے اعتبارسے خصوص ہے؛ اس لیے محشی نے کہا: فرضنا خاص نہیں ؛ بلکہ لفظ فرض خاص ہے فارض کے اعتبار سے، نہ کہ اُس کے معنیٰ کے اعتبار سے؛ اِس لیے کہ معنیٰ کے اعتبار سے خصوص کا اوپر ذکر ہوگیا۔ واللہ أعلم(نورالانوار:۲۸)
(۲) جیسے: اما زیادۃ کونہ (الطواف) سبعۃ أشواط، وابتداؤہ من الحجر الأسود، ((فلعلہ)) ثبت بالخبر المشھور، وھو جائز بالاتفاق۔
یہ دفع دخل مقدر ہے ،اِس کا پس منظر یہ ہے کہ: حضرات شوافع کی طرف سے یہ نقض ہورہا ہے کہ، لفظ خاص بیّن بنفسہ ہوتاہے، بیان کا احتمال نہیں رکھتا، اِسی بنا پر آپ طواف میں طہارت کی شرطیت کے بھی قائل نہیں ہوئے، تو لفظ طواف سے سات چکروں کا ثابت کرنا، طواف کی ابتداء حجر اسود سے کرنا، کہاں سمجھ میں آتاہے؟ ملاجیون نے اگرچہ فلعلہ سے جواب دیا ہے؛ لیکن اِس پر محشی فرماتے ہیں :
قولہ: فلعلہ الخ،قال عليّ القاري: وأَما ثبوت العدد بالطواف، وتعیین الابتداء بالحجر الاسود -علی القول بکونہ فرضا- فبالأخبار المشھورۃ؛ وبھایجوزالزیادۃ علی الکتاب۔ انتھی۔ ولعل التعبیر بِـ’’لَعَل‘‘ إیماء إلی أن روایۃ الابتداء من الحجر الأسود خبرٌ واحدٌ علی ما قیل، فالأولی أن یقال: الابتداء من الحجر الاسود لیس بشرط، حتی قال بعض أصحابنا: أنہ إن ابتدأ من غیر الحجر الأسود یُعتدّ بہ؛ لکنہ مکروہ۔ تدبر (مرتب)