Deobandi Books

انوار المطالع فی ھدایات المطالع

185 - 214
	قاعدہ۳۵): کبھی کسی اعتراض کا جواب اللّٰہُمَّ اِلاَّ اَنْ یُقَالَ کہہ کر دیا جاتا ہے(۱) جب کہ جواب ضعیف ہو، اور اِسی طرح  وَیُمْکِنُ، وَ یَجُوْزُ، قِیْلَ فِي جَوَابِہِ ، قَدْ یُقَالُ، اُجِیْبَ، قَدْ اُجِیْبَ، قَدْ یُقَالُ، اَجَابُوْا، قَدْ فَسَّرُوْا۔ اور اِس کے مانند تعبیرات لاتے ہیں (۲)۔ 
                                              
	(۱)جیسے: نور الانوار کی عبارت پر محشی پکڑ کرتے ہوئے فرماتے ہیں ، جس کو سمجھنے کے لیے متن، شرح اور حاشیہ تحریر کیا جاتا ہے۔ م: وکان المہرُ مقدراً شرعاً غیرَ مضافٍ إلی العبد۔ ش: وبیانہ أن تقدیر المہر عند الشافعیؒ مفوَّض إلیٰ رأي العبادِ واختیارہم، فکلُّ ما یَصلح ثمناً یَصلح مہراً عندَہ، وعندَنا: وإنْ کانَ لایُقدرُ فيْ جانبِ الأکثرِ لٰکنْ یُقدرُ فيْ جانبِ الاقلِّ، وہوَ أن لایکونَ أقلَّ منْ عشرۃِ دراہمَ، عملاً بقولہِ تَعالیٰ: {قَدْ عَلِمْنَا مَا فَرَضْنَا عَلیْہِمْ فِيْ أَزْوَاجِہِمْ وَمَا مَلَکَتْ اَیْمَانُہُمْ} أي قدْ علمنَا ما قدَّرنا علیہمْ فيْ حقِّ أزواجہمْ ’’وہوَ المہرُ‘‘، (۱)فالفرضُ لفظٌ خاصٌّ وُضعَ لمَعنیٰ التقدیرِ، (۲)وکذلکَ ضمیرُ المتکلمِ خاصٌّ علیٰ ماقالوا (۳)و((کذا الاسنادُ خاصٌّ عندَ صاحبِ التوضیح))۔ شارح کا صاحب توضیح کی بات کو نقل کرنا کہ: اسناد بھی خاص ہے، اِس پر محشیؒ فرماتے ہیں : ولکَ أن تقولَ: أنَّ لفظَ ’’فرضنا‘‘ منْ حیثُ اشتمالہِ علی الإسنادِ مُرکبٌ فلا یکونُ خاصاً؛ لأنَّ الخاصَّ منْ أقسامِ المُفردِ ((اللّہمَّ إلاّ أنْ یقالَ)) أن المُرادَ أنّ لفظَ الفرضِ خاصٌّ من حیثُ الإسنادِ۔ ہوسکتا ہے صاحبِ توضیح کی مراد یہ ہو کہ،فرضنا اگرچہ خاص نہیں ؛ لیکن فرض کی اسناد جمع متکلم سے مراد صرف اللہ پاک کی ذات ہے، تو اس مجازی اسناد کے اعتبارسے خصوص ہے؛ اس لیے محشی نے کہا: فرضنا خاص نہیں ؛ بلکہ لفظ فرض خاص ہے فارض کے اعتبار سے، نہ کہ اُس کے معنیٰ کے اعتبار سے؛ اِس لیے کہ معنیٰ کے اعتبار سے خصوص کا اوپر ذکر ہوگیا۔ واللہ أعلم(نورالانوار:۲۸)
	(۲) جیسے: اما زیادۃ کونہ (الطواف) سبعۃ أشواط، وابتداؤہ من الحجر الأسود، ((فلعلہ)) ثبت بالخبر المشھور، وھو جائز بالاتفاق۔
	یہ دفع دخل مقدر ہے ،اِس کا پس منظر یہ ہے کہ: حضرات شوافع کی طرف سے یہ نقض ہورہا ہے کہ، لفظ خاص بیّن بنفسہ ہوتاہے، بیان کا احتمال نہیں رکھتا، اِسی بنا پر آپ طواف میں طہارت کی شرطیت کے بھی قائل نہیں ہوئے، تو لفظ طواف سے سات چکروں کا ثابت کرنا، طواف کی ابتداء حجر اسود سے کرنا، کہاں سمجھ میں آتاہے؟ ملاجیون نے اگرچہ  فلعلہ سے جواب دیا ہے؛ لیکن اِس پر محشی فرماتے ہیں : 
	قولہ: فلعلہ الخ،قال عليّ القاري: وأَما ثبوت العدد بالطواف، وتعیین الابتداء بالحجر الاسود -علی القول بکونہ فرضا- فبالأخبار المشھورۃ؛ وبھایجوزالزیادۃ علی الکتاب۔ انتھی۔ ولعل التعبیر بِـ’’لَعَل‘‘ إیماء إلی أن روایۃ الابتداء من الحجر الأسود خبرٌ واحدٌ علی ما قیل، فالأولی أن یقال: الابتداء من الحجر الاسود لیس بشرط، حتی قال بعض أصحابنا: أنہ إن ابتدأ من غیر الحجر الأسود یُعتدّ بہ؛ لکنہ مکروہ۔ تدبر (مرتب)  


x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 أنْوَارُ المَطَالِعْ 1 1
3 جملہ حقوق بحقِ ناشر محفوظ ہیں 2 2
4 مطالعۂ کتب کے راہ نُما اصول 3 2
5 فہرست مضامین 5 2
6 کلمات توثیق ودعا 15 2
7 تقریظ حضرت الاستاذ مولانا قاری عبدالستار صاحب (استاذ حدیث وقراء ت دارالعلوم وڈالی) 17 2
8 مقدمہ 19 2
9 کام کی نوعیت اور کتاب میں رعایت کردہ اُمور 21 8
10 ایک نظر یہاں بھی 22 8
11 مصنف کا مختصر تعارف 22 8
12 مصنفؒ کی دیگر تصانیف 23 8
13 وقت باری تعالیٰ کا ایک قیمتی تحفہ 24 8
14 نظام الاوقات 25 8
15 احتساب 25 8
16 کیا آپ بھی کچھ بننا چاہتے ہیں ؟ 26 8
17 طالب کا کردار، اقوالِ اکابر کی روشنی میں 28 8
18 عُلما، طلبا اور حُفاظ کی فضیلت 29 8
19 حفظِ متون 39 8
20 ملکۂ تحریر پیدا کرنے کا نسخہ 39 8
21 فوائد ثمینہ 39 8
22 پیش لفظ(از مؤلف) 43 2
24 القِسْمُ الأوّلُ في مُطالَعۃِ المُبتدِئیْنَ 47 1
25 معرب،مبنی 52 24
26 منصرف،غیر منصرف 52 24
27 معرفہ، نکرہ 56 24
28 مذکر، مؤنث 57 24
29 واحد، تثنیہ، جمع 59 24
30 [اعرابِ اسمائے متمکنہ] 61 24
31 عَناوین کے اعراب کی تعیین 63 24
32 ابتدائِ کلام میں واقع ہونے والے اسماء 65 24
33 درمیانی کلام میں واقع ہونے والا اسم اور اس کامابعد 66 24
34 تابع، متبوع کی تعیین 70 24
35 متعلقاتِ جملہ فعلیہ 74 24
36 تعیین اجزائِ جملہ فعلیہ 77 24
37 اجزاء جملہ فعلیہ واسمیہ کی شناخت 80 24
38 دو فعل ایک جگہ جمع ہوں 81 24
39 حروفِ معانی 82 24
40 قوانینِ مُہِمہْ 88 24
41 فوائد مختلفہ مہِمَّہ 90 24
42 کلماتِ ذو وجہین 90 24
43 مطالعۂ کتب کے بنیادی اصول 95 24
44 لغت دیکھنے کا طریقہ 96 24
45 القسمُ الثاني في مُطالعۃِ المتوسطِین 99 1
46 بسملہ و حمدلہ 101 45
47 تصلیہ: (صلاۃ علی النبي) 101 45
48 بوقت ابتدائے کتاب اسالیبِِ مصنفین 102 45
49 متن اور طرزِِ تحریر 106 45
50 شرح کی احتیاج اور اس کے دواعی 107 45
51 بہ وقتِ شرح رعایت کردہ اُمور 112 45
52 وہ امور جن کی بہ وقتِ شرح رعایت کی جاتی ہے 112 45
53 متن وشرح میں بہ غرضِ مخصوص مستعمل الفاظ 125 1
54 ماتن کی متانت 127 53
55 ماتن کا لفظِ ’’إعْلمْ‘‘اور اغراضِ ثلاثہ 130 53
56 شارح کی سخاوت 135 53
57 اسالیبِ شرح 135 53
58 فرائضِ شارحین 136 53
59 الفاظِ دفعِ وہم و اعتراض 138 53
60 مطالعۂ کتبِ عربیہ میں مُعِین ۳۸؍ ضروری قواعد وضوابط 143 53
61 وہ ضمائر جن کے مراجع بظاہر مذکور نہیں ہوتے 145 53
62 وجہِ تسمیہ، وجہِ عدول اور کلمۂ اِنَّمَا 147 53
63 شراح کا دلچسپ انداز استدلال اورکلماتِ جواب ودلیل 149 53
64 شرَّاح کا لفظِ ’’اِعلم‘‘ اور مقاصدِ اربعہ 158 53
65 طریقۂ استدلال اور مخالِفین پر رد 159 53
66 دورانِ شرح غیر کا قول نقل کرنے کی اَغراض 159 53
67 اجوبۂ مختلفہ اور اُن کی حیثیات 170 53
68 لفظِ ’’اَیْ‘‘ کا فلسفہ 174 53
69 فائدۂ نافعہ 182 53
70 شارحین کے مخصوص کلماتِ تعریض وکنایہ 184 53
71 عطف کا معیار، واؤ کی تعیین 188 53
72 خاتمۂ کتاب 193 1
73 مختصراً علم کی فضیلت 195 72
74 علوم وفنون کی اہمیت اور اُن میں آپسی ربط 196 72
75 علم المطالعہ کی اہمیت 197 72
77 ایک سچا طالبِ علم اور اُس کے صفات 198 72
78 آداب طالبِ علم 199 72
79 ایک کامیاب طالبِ علم 201 72
80 طریقۂ مطالعہ 203 72
81 ترقیم کے چند قواعد ورموز 207 72
82 رموز اوقاف 207 72
83 یومیہ محاسبہ 209 72
84 رموزِ عددی وکلماتِ مخففہ 210 72
85 کتاب کی فریاد اپنے حامِلین سے 211 72
86 اہم مآخذ ومراجع 212 72
Flag Counter