قال استاذی سیدی سندی مولائی المولوی السید الحاج الحافظ القاری محمد شاہ مدظلہ العالی (۱)۔
قاعدہ۳۱):مصنف کبھی لفظِ أَیْضًا کو ذکر فرماتے ہیں اور شارحین اِس کے بعد لفظِ کَمَا کے ساتھ کلام کا آغاز فرماتے ہیں ، جس سے حکم کی کیفیت اوروجہِ مشارکت کو بیان کرنا مقصود ہوتا ہے(۲)۔
فائدہ: مصنف کے کلام میں ایک کلمۂ اصطلاحی قابلِ تعریف ہوتا ہے، شارح اُس لفظ کو قولہ:… سے بیان کرتے ہیں ، اِس کے بعد اپنے کلام کو شروع کرتے وقت اُسی لفظ کو کبھی مکرر لاتے ہیں ، جیسے: عبداللہ یزیدی، شارحِ تہذیبُ المنطق نے ایک مقام پر لکھا ہے: قَوْلُہٗ:القَانُوْنُ، القَانُوْنُ:لَفْظٌ یُوْنَانِيٌ أَوْسرْیَانِيٌ آہ۔ اور کبھی ایسے مقام پر ضمیر راجع فرما دیتے ہیں (۳)۔
قاعدہ۳۲): حیثیات تین طرح کی ہوتی ہیں : [۱]اطلاقیہ [۲]تقیدیہ [۳]تعلیلیہ۔
حیثیتِ اطلاقیہ اور تقیدیہ: یہ سوالِ مقدر کے جواب میں لاتے ہیں ۔ اور حیثیت تعلیلیہ دلیل بیان کرنے کے لیے لاتے ہیں ، کہ مثالِ مذکور ممثَّل لہ کے مطابق ہے۔
فائدہ: کبھی کلمۂ حَیْث پر باء جارَّہ یا مِنْ جارہ داخل کرتے ہیں ، ایسے وقت میں وہ حَیْثُ غیر تعلیلیہ ہوتا ہے۔
اور جس حیث پر باء جارہ داخل ہوگی وہ حیث تقییدیہ(۴) ہوگا۔ فافْہَمْ وتَدَبَّرْ۔
(۱)جیسے: والموضوع إن قصد بجزئہ الدلالۃ علی جزء معناہ فمرکب، إما تام: (أي یصح السکوت علیہ ،کزید قائم)، خبر (إن احتمل الصد ق والکذب، أي یکون من شأنہ أن یتصف بھما، ((بأن یقال)) لہ [أي للمرکب التام الخبري]: صادق أو کاذب)؛ أو انشاء (إن لم یحتملھما)۔ (شرح تہذیب:۱۰)
(۲)کسی مقسم کی ایک تقسیم کے بعد ’’أَیْضاً‘‘ اِس بات کی طرف اشارہ ہوتا ہے کہ مذکورہ تقسیم بھی پہلے مقسم کی تقسیمِ ثانی ہے جس کی طرف شارح اشارہ کرتے ہیں ، جیسے: شرحِ تہذیب میں ہے: وَأَیْضاً۔۔۔ وَفِیہِ اِشارَۃٌ إِلَی أَنَّ ھٰذہِ القِسمَۃَ أَیضاً لِمُطلَقِ المُفْرَدِ، لاَ لِلاسْمِ۔ (شرح تہذیب:ص:۱۱)
(۳)جیسے :الصلاۃوالسلام علی من أرسلہ ھدیً،… وعلی ألہ وأصحابہ۔ ش: قولہ: وأصحابہ، ھم المؤمنون الذین أدرکوا صحبۃ النبيا مع الایمان۔ (شرح تہذیب:۴)
(۴)حیثیتِ اطلاقیہ: جس میں محیّث کے اندر کوئی اضافہ نہیں ہوتا ہے، اِس میں حیثیت کا ما قبل اور ما بعدغ