لِمَوْلٰنَا القُمْقَامُ الہُمَامُ الطَّمْطَامُ المَوْلَوِيْ المَعْنَوِي نُوْرُ الدِّیْنْ عَبْدُالرَّحْمٰنِ الجَامِيْ قَدَّسَ اللّٰہُ سِرَّہُ السَّامِي۔
[۵]کبھی لفظِ اَيْ کو ذکر کرتے ہوئے یہ بتانا مقصود ہوتا ہے کہ مصنف نے لفظِ مطلق بول کر مقید مراد لیا ہے۔
[۶] مصنف کا کلام اپنے اطلاق پر با قی ہے؛ لیکن ایسے مقامات پر بہ جائے اَيْ کے مُطْلَقًا کا لفظ زیادہ تر استعمال فرماتے ہیں ، اِس کے بعد میں اَداتِ انفصال کو لاکراُس مطلق کے اَنواع کو بیان فرماتے ہیں ، ایسے وقت میں لفظِ سَوَائٌ کَانَ کو کبھی ذکر کرتے ہیں اور کبھی ترک کردیتے ہیں (۱)۔
[۷] تفسیر بِـ’’اَيْ‘‘ سے کبھی یہ مقصود ہوتا ہے کہ، یہ لفظ فلاں معنیٰ سے کنایہ ہے، یا اِس لفظ سے مجازی معنیٰ مراد ہے نہ کہ حقیقی (۲)، یا حقیقی معنی مراد ہے نہ کہ مجازی، یا اِس سے لغوي معنیٰ مراد
ـتقریرکی اہمیت دل میں جاگزیں ہوگی۔ مزید یہ بھی فائدہ ہوگا کہ، مسلسل ہفتہ بھر اِس طرح حواشی پر نظر رکھنے سے ہر روز آئندہ کل کے حواشی کو حل کرنا سہل اور نہایت آسان ہوجائے گا۔ وفقنا اللّٰہ لما یحب ویرضیٰ۔ مرتب
(۱)جیسے نجاست غلیظہ میں کونسی چیزیں داخل ہیں ؟اور اُس میں کتنی مقدار معاف ہے؟۔
وعُفي قدر الدرھم کعرض الکف من نَجَس مغلظ، کالدم والخمر وخُرئِ الدجاجۃ، وبول مالایؤکلُ لحمُہ، والروث والخِثِي۔
قولہ: والبول: أي الآدمي ((مطلقاً سواء کان)) بول الصغیر لم یطعم، أو کبیر یطعم؛ فلا فرق فی وجوب إزالتہا بالغَسل بینھما ((خلافاً للشافعی: حیث)) اکتفی في بولِ الصغیر بالرش والنضح، للحدیث الوارد، ولنا العمومات۔ و((ماورد فیہ من النضح والرش فالمراد بہ)) الغسل، ((گویا آپ کا استدلال لفظ نضح سے صحیح نہیں ہے)) ویدل علیہ قولہ في الذي توضأ: {وانضِح فرجَک}؛ إِذ لایجزء ہ إلا الغسلُ، فکذا ھذا۔یعنی جب استنجاء میں نضح سے مراد بالاتفاق غسل ہی ہے، ایسے ہی بولِ صبی میں بھی غسل ہی مراد ہے۔ (کنز الدقائق:۱۶،مع حاشیہ بحوالہ فتح القدیر)
(۲)جیسے: ہدایہ میں بَابُ التَّبرُّعِ بِالصُّلحِ والتَّوکِیْلِ بِہِ میں وَالمَالُ لاَزِمٌ لِلْمُوَکِّلِ پر محشی فرماتے ہیں : أيْ عَلَی المُوَکِّلِ یعنی اِس جگہ لام، علیٰ کے معنیٰ میں ہے، پھر اِس پر قولِ باری سے استشہاد فرماتے ہیں : کَما فيْ قولہ تَعالیٰ{وَإنْ اَسَأْتُمْ فَلَھَا}أَيْ عَلیْھا۔ (ہدایہ ۳؍ ۲۵۰)