[۴]شارِحین کبھی ایسا بھی کرلیتے ہیں کہ لفظ مبہم کی تفسیر فرما کر اُن مذکورہ بالا اشیاء کی طرف چنداں توجہ نہیں فرماتے اِعْتِمَاداً عَلیٰ الطَّالِبِ الذَّکِيِّ الاَرِیْبِ الفَطینِ اللَّبِیْبِ۔ اور یہی عادت اکثر مصنفین شارحین کی ہوتی ہے (۱)، جیسے: شَرْحُ الکَافِیَۃِ: الفَوَائِدُ الضِّیَائِیَّۃُ۔
ـکا انکار کرتے ہو، اُسی بات کو تم خود نظر عقل سے ثابت کر رہے ہوں ؟ اور وہ اِس طرح ہے: لوْ کان نظر العقلِ سبباً للعلمِ في النظریاتِ، لَمَا وقع فیہا اختلافُ العقلاء؛ ولٰکن اختلاف العقلاء فیہا کثیرٌ، فعُلم أن العقل لیس سبباً للعلم،گویا تمہاری بات میں دَم ہی نہیں ۔
شارح فرماتے ہیں : پھر اگر وہ مخالفین یوں کہیں کہ: ہم تو بہ طورِ معارضہ ایک فاسد چیز کو (نظر کا مفید للعلم ہونا) فاسد چیز (کثرت اختلاف نظر کے مفید للعلم نہ ہونے پر دلالت کرتا ہے) سے توڑ رہے ہیں ۔
شارح اِس کا دنداں شکن جواب دیتے ہیں کہ: آپ کا یہ معارضہ کرنا یا تو آپ کو کچھ فائدہ دے گا یا نہ دے گا؟ اگر فائدہ دیتا ہے تو وہ معارضہ کرنا فاسد نہ رہا، اور اگر فائدہ نہیں دیتا تو آپ اُس کو معارضہ نہ کہو، کیوں کہ معارضہ تو خصم کی انکار کردہ شیٔ کے اثبات کے لیے ہوتا ہے؛ لأنَّ المُعارضۃَ إِثباتُ ما اَنکرہٗ الخصمُ، فمَالایُفیدُ الاثباتَ لایَکونُ مُعارضۃً۔
اگرمتکلمین میں کوئی یوں کہیں کہ: آپ ہمیں بتلاؤ کہ نظر عقل کا مفید للعلم ہونا بدیہی چیز ہے یا نظری؟ ((دونوں شقوں )) پر ہمارا اعتراض ہے: اگر بدیہی چیز ہے تو اِس میں اختلاف نہ ہونا چاہیے، جیسے: الواحدُ نصفُ الاثنینِ کہ ایک دو کا آدھا ہے، اِس میں کوئی اختلاف نہیں ۔ اور اگر نظر عقل کا مفید للعلم ہونا نظری ہے، تو اِس میں دَور لازم آرہا ہے؛ کیوں کہ تم نظرِ عقل کے مفید للعلم ہونے کو نظر سے ثابت کر رہے ہو، جس نظر کا ابھی تک اثبات ہی نہیں ہوسکا ہے۔
شارح نے دونوں شقوں کو صحیح فرماتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں کہ: نظر عقل کا مفید للعلم ہونا ایک بدیہی چیز ہے، اور بسا اوقات بدیہیات میں اختلاف بوجہِ سرکشی و عناد ہوتا ہے، اور یہ بات بھی مسلّم ہے کہ کبھی عوارض کی وجہ سے کسی بدیہی چیز کے اِدراک سے عقول قاصر ہوتی ہیں ، اور وہ بھی اختلاف کا سبب بنتی ہیں ۔ رہا عقلوں میں تفاوت ہونا، تو اِس پر عُقلا کا اتفاق ہے کہ امامِ ابو حنیفہؒ اور نائی کی عقل برابر نہیں ۔ نیز آقا انے عورتوں کے بابت فرمایا ہے: ھُنَّ نَاقِصَاتُ العقلِ وَالدِّینِ۔
(۱) ملاحظہ: ماتنین اور شارحین کے اہم مقاصد کی طرف اکثر وبیشتر حواشی وبین السطور میں اشارہ مل جاتا ہے، جس سے متن وشرح کا سمجھنا بالکل آسان ہوجاتا ہے؛ کیوں کہ محشی ایک کتاب کے حاشیہ پر دسیوں ماہرین فن کے نکات واشارات تحریر کرتے ہیں ، اور بسا اوقات لمبے چوڑے حواشی کے نچوڑ کوبین السطور کے ایک دو لفظ میں سمیٹ لیتے ہیں ؛ لہٰذا حواشی و بین السطور سے بے اعتنائی برتنا بھی ٹھیک بات نہیں ہے۔
حواشی کو حل کرنے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ: استاذِ محترم کے سبق پڑھا دینے کے بعد روزانہ کے اسباق کے حواشی کو تکرار کے بعد یا تکرار سے پہلے مکمل دیکھ لیں ، اِس سے نقد تین فائدے ہوں گے: (۱) یہ معلوم ہوگا کہ استاذ صاحب کا بیان کردہ مطلب بہ زبانِ عربی کیسے بیان کیا جاتا ہے؟ (۲)بہ زبانِ عربی نقل شدہ عبارت کو بہ زبانِ اردو کیسے تعبیر کیا جاتا ہے؟ (۳)یہ احساس ہوگا کہ استاذِ محترم کی مکمل تقریر تو اب سمجھ میں آئی، جس سے استاذ صاحب کا احترام اور اُن کی غ