Deobandi Books

انوار المطالع فی ھدایات المطالع

177 - 214
	[۴]شارِحین کبھی ایسا بھی کرلیتے ہیں کہ لفظ مبہم کی تفسیر فرما کر اُن مذکورہ بالا اشیاء کی طرف چنداں توجہ نہیں فرماتے اِعْتِمَاداً عَلیٰ الطَّالِبِ الذَّکِيِّ الاَرِیْبِ الفَطینِ اللَّبِیْبِ۔ اور یہی عادت اکثر مصنفین شارحین کی ہوتی ہے (۱)، جیسے: شَرْحُ الکَافِیَۃِ: الفَوَائِدُ الضِّیَائِیَّۃُ۔ 
                                              
ـکا انکار کرتے ہو، اُسی بات کو تم خود نظر عقل سے ثابت کر رہے ہوں ؟ اور وہ اِس طرح ہے: لوْ کان نظر العقلِ سبباً للعلمِ في النظریاتِ، لَمَا وقع فیہا اختلافُ العقلاء؛ ولٰکن اختلاف العقلاء فیہا کثیرٌ، فعُلم أن العقل لیس سبباً للعلم،گویا تمہاری بات میں دَم ہی نہیں ۔
	شارح فرماتے ہیں : پھر اگر وہ مخالفین یوں کہیں کہ: ہم تو بہ طورِ معارضہ ایک فاسد چیز کو (نظر کا مفید للعلم ہونا) فاسد چیز (کثرت اختلاف نظر کے مفید للعلم نہ ہونے پر دلالت کرتا ہے) سے توڑ رہے ہیں ۔ 
	شارح اِس کا دنداں شکن جواب دیتے ہیں کہ: آپ کا یہ معارضہ کرنا یا تو آپ کو کچھ فائدہ دے گا یا نہ دے گا؟ اگر فائدہ دیتا ہے تو وہ معارضہ کرنا فاسد نہ رہا، اور اگر فائدہ نہیں دیتا تو آپ اُس کو معارضہ نہ کہو، کیوں کہ معارضہ تو خصم کی انکار کردہ شیٔ کے اثبات کے لیے ہوتا ہے؛ لأنَّ المُعارضۃَ إِثباتُ ما اَنکرہٗ الخصمُ، فمَالایُفیدُ الاثباتَ لایَکونُ مُعارضۃً۔
	 اگرمتکلمین میں کوئی یوں کہیں کہ: آپ ہمیں بتلاؤ کہ نظر عقل کا مفید للعلم ہونا بدیہی چیز ہے یا نظری؟ ((دونوں شقوں )) پر ہمارا اعتراض ہے: اگر بدیہی چیز ہے تو اِس میں اختلاف نہ ہونا چاہیے، جیسے: الواحدُ نصفُ الاثنینِ کہ ایک دو کا آدھا ہے، اِس میں کوئی اختلاف نہیں ۔ اور اگر نظر عقل کا مفید للعلم ہونا نظری ہے، تو اِس میں دَور لازم آرہا ہے؛ کیوں کہ تم نظرِ عقل کے مفید للعلم ہونے کو نظر سے ثابت کر رہے ہو، جس نظر کا ابھی تک اثبات ہی نہیں ہوسکا ہے۔
	شارح نے دونوں شقوں کو صحیح فرماتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں کہ: نظر عقل کا مفید للعلم ہونا ایک بدیہی چیز ہے، اور بسا اوقات بدیہیات میں اختلاف بوجہِ سرکشی و عناد ہوتا ہے، اور یہ بات بھی مسلّم ہے کہ کبھی عوارض کی وجہ سے کسی بدیہی چیز کے اِدراک سے عقول قاصر ہوتی ہیں ، اور وہ بھی اختلاف کا سبب بنتی ہیں ۔ رہا عقلوں میں تفاوت ہونا، تو اِس پر عُقلا کا اتفاق ہے کہ امامِ ابو حنیفہؒ اور نائی کی عقل برابر نہیں ۔ نیز آقا انے عورتوں کے بابت فرمایا ہے: ھُنَّ نَاقِصَاتُ العقلِ وَالدِّینِ۔   
	(۱) ملاحظہ: ماتنین اور شارحین کے اہم مقاصد کی طرف اکثر وبیشتر حواشی وبین السطور میں اشارہ مل جاتا ہے، جس سے متن وشرح کا سمجھنا بالکل آسان ہوجاتا ہے؛ کیوں کہ محشی ایک کتاب کے حاشیہ پر دسیوں ماہرین فن کے نکات واشارات تحریر کرتے ہیں ، اور بسا اوقات لمبے چوڑے حواشی کے نچوڑ کوبین السطور کے ایک دو لفظ میں سمیٹ لیتے ہیں ؛ لہٰذا حواشی و بین السطور سے بے اعتنائی برتنا بھی ٹھیک بات نہیں ہے۔
	حواشی کو حل کرنے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ: استاذِ محترم کے سبق پڑھا دینے کے بعد روزانہ کے اسباق کے حواشی کو تکرار کے بعد یا تکرار سے پہلے مکمل دیکھ لیں ، اِس سے نقد تین فائدے ہوں گے: (۱) یہ معلوم ہوگا کہ استاذ صاحب کا بیان کردہ مطلب بہ زبانِ عربی کیسے بیان کیا جاتا ہے؟ (۲)بہ زبانِ عربی نقل شدہ عبارت کو بہ زبانِ اردو کیسے تعبیر کیا جاتا ہے؟ (۳)یہ احساس ہوگا کہ استاذِ محترم کی مکمل تقریر تو اب سمجھ میں آئی، جس سے استاذ صاحب کا احترام اور اُن کی غ


x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 أنْوَارُ المَطَالِعْ 1 1
3 جملہ حقوق بحقِ ناشر محفوظ ہیں 2 2
4 مطالعۂ کتب کے راہ نُما اصول 3 2
5 فہرست مضامین 5 2
6 کلمات توثیق ودعا 15 2
7 تقریظ حضرت الاستاذ مولانا قاری عبدالستار صاحب (استاذ حدیث وقراء ت دارالعلوم وڈالی) 17 2
8 مقدمہ 19 2
9 کام کی نوعیت اور کتاب میں رعایت کردہ اُمور 21 8
10 ایک نظر یہاں بھی 22 8
11 مصنف کا مختصر تعارف 22 8
12 مصنفؒ کی دیگر تصانیف 23 8
13 وقت باری تعالیٰ کا ایک قیمتی تحفہ 24 8
14 نظام الاوقات 25 8
15 احتساب 25 8
16 کیا آپ بھی کچھ بننا چاہتے ہیں ؟ 26 8
17 طالب کا کردار، اقوالِ اکابر کی روشنی میں 28 8
18 عُلما، طلبا اور حُفاظ کی فضیلت 29 8
19 حفظِ متون 39 8
20 ملکۂ تحریر پیدا کرنے کا نسخہ 39 8
21 فوائد ثمینہ 39 8
22 پیش لفظ(از مؤلف) 43 2
24 القِسْمُ الأوّلُ في مُطالَعۃِ المُبتدِئیْنَ 47 1
25 معرب،مبنی 52 24
26 منصرف،غیر منصرف 52 24
27 معرفہ، نکرہ 56 24
28 مذکر، مؤنث 57 24
29 واحد، تثنیہ، جمع 59 24
30 [اعرابِ اسمائے متمکنہ] 61 24
31 عَناوین کے اعراب کی تعیین 63 24
32 ابتدائِ کلام میں واقع ہونے والے اسماء 65 24
33 درمیانی کلام میں واقع ہونے والا اسم اور اس کامابعد 66 24
34 تابع، متبوع کی تعیین 70 24
35 متعلقاتِ جملہ فعلیہ 74 24
36 تعیین اجزائِ جملہ فعلیہ 77 24
37 اجزاء جملہ فعلیہ واسمیہ کی شناخت 80 24
38 دو فعل ایک جگہ جمع ہوں 81 24
39 حروفِ معانی 82 24
40 قوانینِ مُہِمہْ 88 24
41 فوائد مختلفہ مہِمَّہ 90 24
42 کلماتِ ذو وجہین 90 24
43 مطالعۂ کتب کے بنیادی اصول 95 24
44 لغت دیکھنے کا طریقہ 96 24
45 القسمُ الثاني في مُطالعۃِ المتوسطِین 99 1
46 بسملہ و حمدلہ 101 45
47 تصلیہ: (صلاۃ علی النبي) 101 45
48 بوقت ابتدائے کتاب اسالیبِِ مصنفین 102 45
49 متن اور طرزِِ تحریر 106 45
50 شرح کی احتیاج اور اس کے دواعی 107 45
51 بہ وقتِ شرح رعایت کردہ اُمور 112 45
52 وہ امور جن کی بہ وقتِ شرح رعایت کی جاتی ہے 112 45
53 متن وشرح میں بہ غرضِ مخصوص مستعمل الفاظ 125 1
54 ماتن کی متانت 127 53
55 ماتن کا لفظِ ’’إعْلمْ‘‘اور اغراضِ ثلاثہ 130 53
56 شارح کی سخاوت 135 53
57 اسالیبِ شرح 135 53
58 فرائضِ شارحین 136 53
59 الفاظِ دفعِ وہم و اعتراض 138 53
60 مطالعۂ کتبِ عربیہ میں مُعِین ۳۸؍ ضروری قواعد وضوابط 143 53
61 وہ ضمائر جن کے مراجع بظاہر مذکور نہیں ہوتے 145 53
62 وجہِ تسمیہ، وجہِ عدول اور کلمۂ اِنَّمَا 147 53
63 شراح کا دلچسپ انداز استدلال اورکلماتِ جواب ودلیل 149 53
64 شرَّاح کا لفظِ ’’اِعلم‘‘ اور مقاصدِ اربعہ 158 53
65 طریقۂ استدلال اور مخالِفین پر رد 159 53
66 دورانِ شرح غیر کا قول نقل کرنے کی اَغراض 159 53
67 اجوبۂ مختلفہ اور اُن کی حیثیات 170 53
68 لفظِ ’’اَیْ‘‘ کا فلسفہ 174 53
69 فائدۂ نافعہ 182 53
70 شارحین کے مخصوص کلماتِ تعریض وکنایہ 184 53
71 عطف کا معیار، واؤ کی تعیین 188 53
72 خاتمۂ کتاب 193 1
73 مختصراً علم کی فضیلت 195 72
74 علوم وفنون کی اہمیت اور اُن میں آپسی ربط 196 72
75 علم المطالعہ کی اہمیت 197 72
77 ایک سچا طالبِ علم اور اُس کے صفات 198 72
78 آداب طالبِ علم 199 72
79 ایک کامیاب طالبِ علم 201 72
80 طریقۂ مطالعہ 203 72
81 ترقیم کے چند قواعد ورموز 207 72
82 رموز اوقاف 207 72
83 یومیہ محاسبہ 209 72
84 رموزِ عددی وکلماتِ مخففہ 210 72
85 کتاب کی فریاد اپنے حامِلین سے 211 72
86 اہم مآخذ ومراجع 212 72
Flag Counter