ہے نہ کہ اصطلاحی(۱)، یا اصطلاحی معنیٰ مراد ہے نہ کہ لغوی، علیٰ ہٰذا القیاس۔
[۸]کبھی لفظِ اَيْ سے متن میں ذکر کردہ ضمیر کا مرجع بیان کرتے ہیں جو شارح کی جانب سے احسانِ محض ہے؛ کیوں کہ یہاں ایسے غیر کی طرف ضمیر کے راجع ہونے کا احتمال ہے جس سے نقض پیش آنے کا خطرہ ہے جو مناسب نہیں ہے، یا کبھی یہ مقصد ہو تا ہے کہ اِس ضمیر کو دونوں مرجعوں کی طرف راجع کرسکتے ہیں ۔
[۹] مصنف کے مبہم یا مختصر کلام کو وضاحت کے ساتھ تعبیر کرنے کے لیے لفظِ أي کو ذکر فرماتے ہیں ۔
[۱۰]کبھی اسم اشارہ کے مشار الیہ، یا اسمِ موصول کی مراد وغیرہ کو بیان کرنے کے لیے لفظ أي کو ذکر کیا جاتا ہے۔
[۱۱] وَاِلاَّ… کے بعد اَيْ کو عبارتِ مقدرہ بیان کرنے کے لیے لایا جاتا ہے(۲)۔
(۱) تفسیر بلفظِ ای کبھی اِس لیے ہوتی ہے تاکہ یہ معلوم ہو کہ، یہاں اِس لفظ کے لغوی معنیٰ مراد ہے نہ کہ اصطلاحی، جیسے ماتنِ تہذیب المنطق نے فرمایا ہے:
م: وَالمقوِّمُ للعاليْ مقوّمٌ للسافلِ، ولا عَکسَ۔ ش: أيْ کُلیاً۔ کہ ہر عالی کا مقوم سافل کا مقوم ہوتا ہے اور اِس کا عکس نہیں ہوتا۔ اِس پر نقض ہوا کہ ماتن کا قول: المُقوِّمُ للعاليْ مقومٌ للسافلِ قضیہ موجبہ کلیہ ہے، جس کا عکسِ اصطلاحی موجبہ جزئیہ یعنی بعضُ مقومٍ للسافلِ مقومٌ للعاليْ آتا ہے، اور یہ بات صحیح بھی ہے، جیسے: حساس، سافل (انسان) کا بھی مقوم ہے اور عالی (حیوان)کا بھی مقوم ہے، حالاں کہ لاعکس کا مطلب یہ ہوگا کہ، عکس غلط آئے گا، جب کہ یہاں پر عکس: موجبہ جزئیہ صحیح ہے، تو پھر ماتن کا ولاعکسکہنا صحیح نہیں ہے؟ شارح نے اِس نقض کو أَيْ کُلِّیّاً سے دفع کیا،کہ یہاں المُقومُ للعاليْ مقومٌ للسافلِ کا عکسِ کلی (عکسِ لغوی) مراد ہے، جو موجبہ کلیہ کی شکل میں کلُّ مقومٍ للسافلِ مقومٌ للعاليْ آتا ہے، یعنی ہر سافل کا مقوم عالی کا مقوم ہواور یہ ضروری نہیں ہے، جیسے: ناطق سافل کا مقوم ہے؛ لیکن حیوان عالی کا مقوم نہیں ہے۔
اِسی کو محشیٔ تحفۂ شاہجہانی نے اِس طرح فرمایاہے: لاعکسَ کلیّاً: فیہِ دفعُ الإیجابِ الکليِّ، لا السلبِ الکلیِّ، ودفعُ الایجابِ الکلیِّ لایُنافیہِ الایجابُ الجزئیُّ۔ یعنی ایجاب کلی کی نفی سے ایجاب جزئی کی نفی ضروری نہیں ہے۔(شرحِ تہذیب ص:۱۹۔ حاشیۂ تحفۂ شاہجہانی ص:۶۸)
(۲): ’’وَإِلاَّ‘‘ کبھی حضراتِ مصنفین کسی مصطلح فنی کے تعریفی اجزاء کو بیان کرنے کے بعد یا مسئلہ کی اہم صورت کو بیان کرنے کے بعد’’ وَاِلاَّ‘‘ فرماتے ہیں ، جیسے: علامہ تفتازانی نے تہذیب المنطق (متنِ شرحِ تہذیب) میں مرکب غ