Deobandi Books

انوار المطالع فی ھدایات المطالع

176 - 214
اعتراض میں مذکور اُن ہی شقوقِ مذکورہ میں سے کسی ایک شق کو معیّن کرلیتے ہیں اور اُس شق کا مُرجِّح بیان فرماکر باقی شقوقِ مذکورہ فی الاعتراض کا صراحۃً، ضِمناً، اشارۃً، یا دلالۃً ایسا قوی رد فرمائیں گے جس سے مصنف کی متعین کردہ شِق پر ہونے والے نقض کا دنداں شکن جواب ہوجائے(۱)۔ 
                                              
ـمخلوق(حادث) ہے یا غیر مخلوق؟ اِس جگہ حنابلہ نے جہلاً یا عِناداً یہ کہہ دیا ہے کہ: قرآن (چاہے کلامِ نفسی ہو، یا کلامِ لفظی: جو حروف، اصوات اور اشکال کے قبیل سے ہے) غیر مخلوق (غیر حادث) ہے۔ 
	معتزلہ نے اصوات، اشکال اور حروفِ قرآنی کو قرآن سمجھ کر یہ کہہ دیا کہ: قرآن حادث ہے۔ 
	جب کہ ماتردیہ واشاعرہ کہتے ہیں کہ: قرآن سے اگر کلامِ نفسی مراد لیں جو باری تعالیٰ سے متصف ہے تو وہ قدیم ہے، سمات حدوث سے منزہ اور پاک ہے۔ اور اِسی بناء پر کہا جاتا ہے: ’’اللّٰہ متکلم بالصفۃ آمر، ناہ، مخبر‘‘۔ اور اگر کلامِ لفظی مراد لیں تو وہ حادث ہے۔ اور قرآن کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ: در حقیقت قرآن جو اللہ کا کلام (کلامِ نفسی) ہے وہ نہ تو پڑھا جا سکتا ہے، نہ لکھا اور نہ سنا جا سکتا ہے؛ ہاں ! اِس کلام پر دلالت کرنے والے نقوش حروف کو پڑھا، سنا اور لکھا جا سکتا ہے۔ اِس تفصیل سے نہ حادث  (حروف نقوش وغیرہ کو)قدیم کہنا لازم آیا، جو حنابلہ کا مذہب ہے، اور نہ قدیم (کلامِ نفسی)کو حادث کہنا لازم آیا، جیسا کہ معتزلہ قائل ہیں ۔ 
	ملاحظہ: [۱]مصنف کا ذکر کردہ انداز مثال کے ساتھ سمجھنے کے لیے آنے والا حاشیہ ملاحظہ فرمائیں ، چوں کہ اُس مثال میں مکمل سوال وجواب کا انداز بعینہٖ ویسا ہی ہے جیسا مصنفؒ نے ذکر کیا ہے؛ لیکن اُس میں لفظِ أي نہیں تھا؛ اِس لیے اُس کو بعد میں ذکر کیا گیا ہے؛ البتہ القول الفصل کی مثال میں لفظِ أي سے شرح وارد ہے۔
	[۲]کلام لفظی ونفسی کی تعریف ’’دستور الطلباء‘‘ میں ملاحظہ فرمائیں ۔ مرتب 
	(۱) شقوقِ مذکورہ فی الاعتراض میں سے کسی ایک شق کو متعین کرنا، جیسے: شرحِ عقائد میں جہاں پر اجمالاً اسبابِ علم کو شمار کیا ہے، وہاں فرمایا:  وَأَسبابُ العلمِ للخَلقِ ثَلاثۃٌ: الحَواسُّ السَلیمۃُ، وَالخبرُ الصادقُ، والعَقلُ۔ اِس کے بعد مقامِ تفصیل میں فرماتے ہیں : وأَمَّا العَقلُ فھوَ سَببٌ للعلمِ أَیضاً۔ گویا عقل کے سببِ علم ہونے کو صراحۃً ذکر کیا۔(شرحِ عقائد ص: ۱۹)
	بہ ایں وجہ کہ عقل کے سببِ علم ہونے میں مَلاحِدہ اور سمنیہ کا اختلاف تمام نظریات کے بابت ہے، کہ وہ مفید للعلم نہیں ہیں ، اور بعض فلاسفہ کا اختلاف الٰہیات کے بارے میں ہے، اور (خود عقل سے کام لیتے ہوئے) استدلال کرتے ہیں کہ: چوں کہ اِن مذکورہ چیزوں میں بہ کثرت اختلاف پایا گیا ہے ، اور رائیں بھی مختلف ہیں ؛ لہٰذا اِس سے معلوم ہوا کہ نظرِ عقل مفید للعلم نہیں ہے؛ ورنہ تو یہ اختلاف نہ ہوتا۔
	اِس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ: اُس اختلاف کی بنیاد فسادِ نظر ہے، جو نظرِ صحیح کے مفید للعلم ہونے کے منافی نہیں ۔ 
	علیٰ أنہ:((جواب بالعلاوہ)) مزید برآں اے مخالفین! ایک طرف تم جس نظر عقل کے مفید للعلم ہونے غ


x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 أنْوَارُ المَطَالِعْ 1 1
3 جملہ حقوق بحقِ ناشر محفوظ ہیں 2 2
4 مطالعۂ کتب کے راہ نُما اصول 3 2
5 فہرست مضامین 5 2
6 کلمات توثیق ودعا 15 2
7 تقریظ حضرت الاستاذ مولانا قاری عبدالستار صاحب (استاذ حدیث وقراء ت دارالعلوم وڈالی) 17 2
8 مقدمہ 19 2
9 کام کی نوعیت اور کتاب میں رعایت کردہ اُمور 21 8
10 ایک نظر یہاں بھی 22 8
11 مصنف کا مختصر تعارف 22 8
12 مصنفؒ کی دیگر تصانیف 23 8
13 وقت باری تعالیٰ کا ایک قیمتی تحفہ 24 8
14 نظام الاوقات 25 8
15 احتساب 25 8
16 کیا آپ بھی کچھ بننا چاہتے ہیں ؟ 26 8
17 طالب کا کردار، اقوالِ اکابر کی روشنی میں 28 8
18 عُلما، طلبا اور حُفاظ کی فضیلت 29 8
19 حفظِ متون 39 8
20 ملکۂ تحریر پیدا کرنے کا نسخہ 39 8
21 فوائد ثمینہ 39 8
22 پیش لفظ(از مؤلف) 43 2
24 القِسْمُ الأوّلُ في مُطالَعۃِ المُبتدِئیْنَ 47 1
25 معرب،مبنی 52 24
26 منصرف،غیر منصرف 52 24
27 معرفہ، نکرہ 56 24
28 مذکر، مؤنث 57 24
29 واحد، تثنیہ، جمع 59 24
30 [اعرابِ اسمائے متمکنہ] 61 24
31 عَناوین کے اعراب کی تعیین 63 24
32 ابتدائِ کلام میں واقع ہونے والے اسماء 65 24
33 درمیانی کلام میں واقع ہونے والا اسم اور اس کامابعد 66 24
34 تابع، متبوع کی تعیین 70 24
35 متعلقاتِ جملہ فعلیہ 74 24
36 تعیین اجزائِ جملہ فعلیہ 77 24
37 اجزاء جملہ فعلیہ واسمیہ کی شناخت 80 24
38 دو فعل ایک جگہ جمع ہوں 81 24
39 حروفِ معانی 82 24
40 قوانینِ مُہِمہْ 88 24
41 فوائد مختلفہ مہِمَّہ 90 24
42 کلماتِ ذو وجہین 90 24
43 مطالعۂ کتب کے بنیادی اصول 95 24
44 لغت دیکھنے کا طریقہ 96 24
45 القسمُ الثاني في مُطالعۃِ المتوسطِین 99 1
46 بسملہ و حمدلہ 101 45
47 تصلیہ: (صلاۃ علی النبي) 101 45
48 بوقت ابتدائے کتاب اسالیبِِ مصنفین 102 45
49 متن اور طرزِِ تحریر 106 45
50 شرح کی احتیاج اور اس کے دواعی 107 45
51 بہ وقتِ شرح رعایت کردہ اُمور 112 45
52 وہ امور جن کی بہ وقتِ شرح رعایت کی جاتی ہے 112 45
53 متن وشرح میں بہ غرضِ مخصوص مستعمل الفاظ 125 1
54 ماتن کی متانت 127 53
55 ماتن کا لفظِ ’’إعْلمْ‘‘اور اغراضِ ثلاثہ 130 53
56 شارح کی سخاوت 135 53
57 اسالیبِ شرح 135 53
58 فرائضِ شارحین 136 53
59 الفاظِ دفعِ وہم و اعتراض 138 53
60 مطالعۂ کتبِ عربیہ میں مُعِین ۳۸؍ ضروری قواعد وضوابط 143 53
61 وہ ضمائر جن کے مراجع بظاہر مذکور نہیں ہوتے 145 53
62 وجہِ تسمیہ، وجہِ عدول اور کلمۂ اِنَّمَا 147 53
63 شراح کا دلچسپ انداز استدلال اورکلماتِ جواب ودلیل 149 53
64 شرَّاح کا لفظِ ’’اِعلم‘‘ اور مقاصدِ اربعہ 158 53
65 طریقۂ استدلال اور مخالِفین پر رد 159 53
66 دورانِ شرح غیر کا قول نقل کرنے کی اَغراض 159 53
67 اجوبۂ مختلفہ اور اُن کی حیثیات 170 53
68 لفظِ ’’اَیْ‘‘ کا فلسفہ 174 53
69 فائدۂ نافعہ 182 53
70 شارحین کے مخصوص کلماتِ تعریض وکنایہ 184 53
71 عطف کا معیار، واؤ کی تعیین 188 53
72 خاتمۂ کتاب 193 1
73 مختصراً علم کی فضیلت 195 72
74 علوم وفنون کی اہمیت اور اُن میں آپسی ربط 196 72
75 علم المطالعہ کی اہمیت 197 72
77 ایک سچا طالبِ علم اور اُس کے صفات 198 72
78 آداب طالبِ علم 199 72
79 ایک کامیاب طالبِ علم 201 72
80 طریقۂ مطالعہ 203 72
81 ترقیم کے چند قواعد ورموز 207 72
82 رموز اوقاف 207 72
83 یومیہ محاسبہ 209 72
84 رموزِ عددی وکلماتِ مخففہ 210 72
85 کتاب کی فریاد اپنے حامِلین سے 211 72
86 اہم مآخذ ومراجع 212 72
Flag Counter