اعتراض میں مذکور اُن ہی شقوقِ مذکورہ میں سے کسی ایک شق کو معیّن کرلیتے ہیں اور اُس شق کا مُرجِّح بیان فرماکر باقی شقوقِ مذکورہ فی الاعتراض کا صراحۃً، ضِمناً، اشارۃً، یا دلالۃً ایسا قوی رد فرمائیں گے جس سے مصنف کی متعین کردہ شِق پر ہونے والے نقض کا دنداں شکن جواب ہوجائے(۱)۔
ـمخلوق(حادث) ہے یا غیر مخلوق؟ اِس جگہ حنابلہ نے جہلاً یا عِناداً یہ کہہ دیا ہے کہ: قرآن (چاہے کلامِ نفسی ہو، یا کلامِ لفظی: جو حروف، اصوات اور اشکال کے قبیل سے ہے) غیر مخلوق (غیر حادث) ہے۔
معتزلہ نے اصوات، اشکال اور حروفِ قرآنی کو قرآن سمجھ کر یہ کہہ دیا کہ: قرآن حادث ہے۔
جب کہ ماتردیہ واشاعرہ کہتے ہیں کہ: قرآن سے اگر کلامِ نفسی مراد لیں جو باری تعالیٰ سے متصف ہے تو وہ قدیم ہے، سمات حدوث سے منزہ اور پاک ہے۔ اور اِسی بناء پر کہا جاتا ہے: ’’اللّٰہ متکلم بالصفۃ آمر، ناہ، مخبر‘‘۔ اور اگر کلامِ لفظی مراد لیں تو وہ حادث ہے۔ اور قرآن کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ: در حقیقت قرآن جو اللہ کا کلام (کلامِ نفسی) ہے وہ نہ تو پڑھا جا سکتا ہے، نہ لکھا اور نہ سنا جا سکتا ہے؛ ہاں ! اِس کلام پر دلالت کرنے والے نقوش حروف کو پڑھا، سنا اور لکھا جا سکتا ہے۔ اِس تفصیل سے نہ حادث (حروف نقوش وغیرہ کو)قدیم کہنا لازم آیا، جو حنابلہ کا مذہب ہے، اور نہ قدیم (کلامِ نفسی)کو حادث کہنا لازم آیا، جیسا کہ معتزلہ قائل ہیں ۔
ملاحظہ: [۱]مصنف کا ذکر کردہ انداز مثال کے ساتھ سمجھنے کے لیے آنے والا حاشیہ ملاحظہ فرمائیں ، چوں کہ اُس مثال میں مکمل سوال وجواب کا انداز بعینہٖ ویسا ہی ہے جیسا مصنفؒ نے ذکر کیا ہے؛ لیکن اُس میں لفظِ أي نہیں تھا؛ اِس لیے اُس کو بعد میں ذکر کیا گیا ہے؛ البتہ القول الفصل کی مثال میں لفظِ أي سے شرح وارد ہے۔
[۲]کلام لفظی ونفسی کی تعریف ’’دستور الطلباء‘‘ میں ملاحظہ فرمائیں ۔ مرتب
(۱) شقوقِ مذکورہ فی الاعتراض میں سے کسی ایک شق کو متعین کرنا، جیسے: شرحِ عقائد میں جہاں پر اجمالاً اسبابِ علم کو شمار کیا ہے، وہاں فرمایا: وَأَسبابُ العلمِ للخَلقِ ثَلاثۃٌ: الحَواسُّ السَلیمۃُ، وَالخبرُ الصادقُ، والعَقلُ۔ اِس کے بعد مقامِ تفصیل میں فرماتے ہیں : وأَمَّا العَقلُ فھوَ سَببٌ للعلمِ أَیضاً۔ گویا عقل کے سببِ علم ہونے کو صراحۃً ذکر کیا۔(شرحِ عقائد ص: ۱۹)
بہ ایں وجہ کہ عقل کے سببِ علم ہونے میں مَلاحِدہ اور سمنیہ کا اختلاف تمام نظریات کے بابت ہے، کہ وہ مفید للعلم نہیں ہیں ، اور بعض فلاسفہ کا اختلاف الٰہیات کے بارے میں ہے، اور (خود عقل سے کام لیتے ہوئے) استدلال کرتے ہیں کہ: چوں کہ اِن مذکورہ چیزوں میں بہ کثرت اختلاف پایا گیا ہے ، اور رائیں بھی مختلف ہیں ؛ لہٰذا اِس سے معلوم ہوا کہ نظرِ عقل مفید للعلم نہیں ہے؛ ورنہ تو یہ اختلاف نہ ہوتا۔
اِس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ: اُس اختلاف کی بنیاد فسادِ نظر ہے، جو نظرِ صحیح کے مفید للعلم ہونے کے منافی نہیں ۔
علیٰ أنہ:((جواب بالعلاوہ)) مزید برآں اے مخالفین! ایک طرف تم جس نظر عقل کے مفید للعلم ہونے غ