اور مراد کو معیّن کرلیتے ہیں (۱)۔
[۲] کبھی کلمۂ مفسَّر بِـ’’اَيْ‘‘ کے اقسام، متعدِّد ہوتے ہیں ، جن میں سے مصنف کسی ایک خاص قِسم کو مراد لیتے ہیں ، بہ ایں وجہ کہ جب لفظ مطلق بولا جاتا ہے تو اِس سے مراد وہی فردِ کامل ہوتا ہے، یا کسی اَور وجہ سے اُس کو خاص کیا ہے، جیسے: اصول کی کتابوں میں ’’کتاب‘‘ سے کتاب اللہ مراد لیتے ہیں ۔
[۳] کسی وہم کو وفع کرنے کے لیے لفظ اَيْ کو لاتے ہیں ؛ کیوں کہ کوئی مُعترِض کہتا ہے: کہ اِس لفظِ مفسرسے تمہاری مراد یہ ہے یا وہ ہے؟ دونوں شِقوں پر میرا اعتراض وارد ہوتا ہے۔(۲)
تو اب شارح اُس لفظِ مبہم کی تفسیر ہی ایسی فرما دیتے ہیں کہ وہ نقض ہی باقی نہ رہے۔ یا کوئی انوکھی(۳) الگ شِق بیان کرتے ہیں جس کی طرف مورِد کی نظر اور توجہ ہی نہ پَہنچی تھی، یا
(۱) اِس لیے کہ بہ یک وقت مفسَّر(مشترک) کے کئی معانی مراد نہیں لے سکتے، الا عند الشافعيؒ(مصنف)۔ تفصیل کے لیے ’’دو فعل ایک جگہ جمع ہوں ‘‘ کا حاشیہ ملاحظہ فرمائیں ۔مرتب
جیسے: کتب فقہ میں شراح ومحشیین، حضراتِ ماتنین کے قول جَازَ اوصَحَّ کی تفسیر میں فرماتے ہیں ’’أي مع الکراہۃ‘‘ کیوں کہ یجوز کا اطلاق کبھی بہ معنیٰ ’’یصحُّ (مع الکراہۃ)‘‘ اور کبھی بہ معنیٰ ’’یحِلُّ (بغیر کراہۃ)‘‘ بھی ہوتا ہے۔ بنا بریں فقہاء صلاۃِ مکروہہ وغیرہ پر ’’جازَ ذلک، صحَّ ذلکَ‘‘ کا اطلاق کرتے ہیں ، اور جواز وصحت سے نفسِ صحت یعنی مقابلِ بطلان کو مراد لیتے ہیں ۔ (مقدمۂ شرح وقایہ)مرتب
(۲) کلمہ ای کے بجائے لفظ والمراد سے وہم کو دور کرنے کی مثال قاعدہ۱۴؍ کے تحت تفصیل سے گزر چکی ہے۔
(۳) لفظ أي کے بعد کوئی انوکھی شق بیان کرنا، جیسے: القرآنُ کلامُ اللّٰہِ تعالیٰ غیرُ مخلوقٍ۔ وہوَ ((أيْ القرآنُ الذيْ)) کلامُ اللّٰہِ تعالَی(الکلام النفسی) مَکتوبٌ فيْ مَصاحفِنا (أيْ بأشکالِ الکتابَۃ وصوَر الحروفِ الدالَّۃِ علیہِ)، مَحفوظٌ فيْ قلوبِنا (أيْ بالفاظٍ مُخیلۃٍ)، مَقروٌّ بألسنتِنا (بحروفِہ المَلفوظۃِ المَسموعۃِ)، مَسموعٌ بآذانِنا (بتلکَ أَیضاً)۔ (شرح عقائد:۵۹)
فقہِ اکبر میں قرآن کی تعریف امام صاحبؒ نے اِس طور پر کی ہے: م:القرآنُ: ش:((أي الکلام النفسيُّ)) لا الحسي المرکب من الحروفِ والأصواتِ الذي عرّفوہ بما بین دفَّتَي المصاحفِ، واستنبطوا منہا الأحکامَ الشرعیّۃَ۔ م: في المصاحفِ مکتوبٌ، وفي القلوبِ محفوظٌ، وعلی الألسنِ مقروؤ، وعلی النبيِّ علیہ السلام منزّلٌ؛ ولفظنُا بالقرآنِ مخلوقٌ، وکتابتُنا لہ مخلوقٌ، وقراء تُنا بالقرآن مخلوقٌ، والقرآنُ غیر مخلوقٍ۔ (القول الفصل شرح الفقہ الاکبر: ۱۹۲)
اِس جگہ لفظِ ’’ای‘‘ سے انوکھی شق بیان کی اور ہونے والے اعتراضات کو دور فرمایا ہے، وہ یہ کہ قرآن آیا غ