لیکن والاصلُ في ھذاالباب کے بعد لٰکِنَّ، اِلاَّ اَنَّ یا اور کوئی اداتِ استثناء واقع ہو، تو ایسی صورت میں والاصل فی ھذا الباب یا اِس کے مثل کلام لانے سے مقصود اُس اعتراض کی توضیح کرنا ہوتا ہے جو مصنف پر وارد ہوا ہے، یعنی مُخَالَفَۃُ اَصْلٍ مُسَلَّمٍ عِنْدَ اَھْلِ الفَنِّ، پھر اِس کے بعد اداتِ استثناء کو ذکر کرتے ہوئے مناسب طریقے سے اُس کا جواب دیا جاتا ہے۔ فافہَمْ ولا تَسرَعْ(۱)۔
قاعدہ۲۵): شارحین کا قول: لاَ یَخْفَی مَافِیْہِ یا اِس کے ہم مثل الفاظ کو ذکر کرنے سے مقصود یا تو:
[۱]کسی اعتراض و سوال کے ضعیف جواب میں موجود کسی ضعف پر تنبیہ کرنا ہوتا ہے۔
[۲]کسی ضعیف قول کے ضعف پر تنبیہ کرنا۔
بہ صورت اُولیٰ شارح اُس مُحکم اعتراض کو جس کا جواب ضعیف ہے دوسرے طریقے پر رد فرماتے ہیں ، اور کبھی جواب سے سکوت ہی اختیار فرماتے ہیں ، ایسے مقام پر طالبِ ذکی کی ذکاوت اور فطانت پر اُس کا جواب موقوف ہوتا ہے؛ لہٰذا علم کے لئے عقل لا بدّی ہے۔ اللّٰہُمَّ! فَقِّھْنَا فِي الدِّیْنِ۔
(۱)جیسے: م: فصلٌ قال: (۱)ومنْ قطع یدَ رجلٍ خطأً، ثمَّ قتلہ عمداً قبلَ أن تبرء یدہ؛ (۲)أوْ قطع یدہٗ عمداً، ثمَّ قتلہ خطأً؛ (۳)أوْ قطع یدہ خطأٍ فبرئت یدُہ، ثمَّ قتلہ خطأً؛ (۴)أو قطع یدہ خطأً فبرئتْ، ثمَّ قتلہ عمداً: فإنہ یؤخذ بالأمرینِ جمیعاً۔
ش: ((والأصل: [القاعدۃ الکلیّۃُ] فیہ)) أن الجمع بین الجراحات واجب ماأمکن تتمیماً للأولِ؛ لأن القتلَ في الأعمِّ (أي في غالبِ الأوقاتِ) یقع بضرباتٍ متعاقبۃٍ، وفي اعتبارِ کلِّ ضربۃٍ بنفسہا بعض الحرجِ ۱؎، ((إلا ألاّ یمکنَ الجمعُ)) فیعطیٰ کل واحدٍ حکمَ نفسہ۔
وقد تعذر الجمع في ہٰذہ الفصولِ: في الأولین لإختلاف حکمِ الفعلینِ؛ وفي الآخرینِ لتخلُّلِ البرء، وہو قاطعٌ للسرایۃِ۔ حتیٰ لوْ لمْ یتخلَّلْ (البرء) وقد تجانسا بأن کان خطأینِ یجمع بالاجماع؛ لإمکان الجمعِ، واکتُفي بدیّۃٍ واحدۃٍ۔ (ہدایہ ۴؍۵۷۴)
۱؎ فائدہ: فیجعل الثاني متمماً للأول، ویجعل الکلُّ واحداً إلا أن لایمکن الجمع: إمّا باختلاف الفعلینِ وصفاً أوْ موجباً أوْ تخللِ البرء، فحینئذٍ یعطیٰ کلّ واحدٍ منہما بنفسہ۔