Deobandi Books

انوار المطالع فی ھدایات المطالع

172 - 214
الفن کے موافق ہے، جس پر اعتراض کرنا بے سود، بے جا اور غیر مسموع ہے۔ یہ تو اِس صورت میں ہے کہ، اِس کے بعد کوئی کلمہ، کلماتِ استثناء میں سے مذکور نہ ہو(۱)۔
                                              
	 (۱)جیسے: شرحِ ابنِ عقیل میں تقدیمِ خبر کے جواز پرصاحبِ الفیہؒ رقم طراز ہے۔
م: وَالأَصْلُ فِيْ الأَخْبَارِ أَنْ تُؤَخَّرَا ((مدعی))


وَجَوَّزُوْا التَّقْدِیْمَ إِذْ لاَ ضَرَرَا
	ش: الأَصلُ تقدیمُ المُبتدأِ وَتأخیرُ الخبرِ((مدعی)) وَیَجوزُ تَقدیمُہٗ إِذا لمْ یَحصُلْ بِذلکَ لُبسٌ أَوْ نَحوہٗ عَلَی مَا سَیُبیّنُ، فَتقوْلُ: قَائمٌ زَیْدٌ، وَقائمٌ أبوْہٗ زیدٌ، وَأبوہٗ مُنْطلقٌ زَیدٌ، وَفيْ الدَّارِ زَیدٌ، وَعِندَکَ عَمرٌو۔ (شرح ابن عقیل:۱۹۴)
         دوسری مثال: کتاب الطہارۃ: اکتفی((المصنف)) بلفظ الواحد، مع کثرۃ الطہارات((نقض))، ((لأن الأصل أن المصدر لایثنی ولایجمع))؛ لکونہا اسم جنس یشمل جمیع أنواعہا وأفرادہا، فلاحاجۃ إلی لفظ الجمع۔ (شرح وقایہ:۵۰)
	ملاحظہ: دلائل میں مذکور الاصل فی ہٰذا الباب ، یا الاصل سے ذکر کردہ دلیل کی مراد اصلِ مقرر عند اہل الفن ہے، لہٰذا مختلف فیہ مسئلہ کے فریقین میں سے ہر ایک کے دلائل کی دلیل الاصل (فریقین نے نزدیک مسلم)سے بیان نہیں کی جاسکتی؛ ہاں ! اگر کسی موقع پر دونوں کے دلائل پر لفظِ الاصل آیا ہو تو اس میں ضرور کوئی تاویل ہوگی، جیسے ھدایہ میں ہے:  
	قال: اذا جنیٰ العبد جنایۃً خطأً، قیل لمَولاہٗ: إمّا ان تدفعہ بہا، أوْ تفدیہ۔ وقال الشافعيؒ: جنایتہ في رقبتہ یباعُ فیہا، إلا أنْ یقضي المولیٰ الأرش۔ وفائدۃ الاختلاف في اتباع الجاني بعد العتقِ، والمسئلۃُ مختلفۃ بین الصحابۃ۔ 
	لہ: ((أنّ الاصل)) في موجب الجنایۃِ أن یجبَ علیٰ المتلفِ ، لأنہ ہو الجاني؛ إلا أن العاقلۃَ تتحمل عنہ، ولاعاقلۃَ للعبد، لأن العقْل عندہ بالقرابۃِ، ولاقرابۃَ بین العبد ومولاہ، فتجبُ في ذمتہ، کما في الذمي، ویتعلقُ برقبتہ، یباع فیہ، کما في الجنایۃ علیٰ المالِ۔ 
	ولنا: ((أن الاصل ۱؎)) في الجنایۃِ علیٰ الآدمي حالۃَ الخطأِ أنْ تتباعد عن الجاني، تحرّزاً عن استئصالہ والإحجافِ بہ، اذ ہو معذور فیہ ((حیث لمْ)) یتعمّد الجنایۃَ، وتجبُ علیٰ عاقلۃِ الجاني اذا کان لہ عاقلۃٌ، والمولیٰ عاقلتہ، لأن العبد یستنصر بہ، والأصل: في العاقلۃِ عندنا النصرۃ۔
	  ۱؎ قولہ: لنا ان الاصل…، فیہ بحث! وہو ان الحکم في المسئلۃِ مختلف، فإن حکمہا عندنا الوجوبُ علیٰ المولیٰ، وعندہ الوجوبُ علیٰ العبد کما ذکرنا؛ وبنائہ علیٰ اصلٍ، ونحن علیٰ اصلٍ، فمن این یکون لأحدنا حجۃٌ علیٰ الاٰخرِ؟ ویمکنُ أن یقالَ: أن قولہ: الاصلُ في موجب الجنایۃِ أن یجبَ علیٰ المتلفِ باطلٌ، فإن اصلہ ذالکَ في موجب جنایۃِ العمدِ أوْ الخطأِ، الأولُ مسلّمٌ ولایفیدُ! إذ الکلامُ في الخطأِ، والثاني وہو عینُ النزاعِ۔ (ھدایہ رابع: ۶۱۷)   


x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 أنْوَارُ المَطَالِعْ 1 1
3 جملہ حقوق بحقِ ناشر محفوظ ہیں 2 2
4 مطالعۂ کتب کے راہ نُما اصول 3 2
5 فہرست مضامین 5 2
6 کلمات توثیق ودعا 15 2
7 تقریظ حضرت الاستاذ مولانا قاری عبدالستار صاحب (استاذ حدیث وقراء ت دارالعلوم وڈالی) 17 2
8 مقدمہ 19 2
9 کام کی نوعیت اور کتاب میں رعایت کردہ اُمور 21 8
10 ایک نظر یہاں بھی 22 8
11 مصنف کا مختصر تعارف 22 8
12 مصنفؒ کی دیگر تصانیف 23 8
13 وقت باری تعالیٰ کا ایک قیمتی تحفہ 24 8
14 نظام الاوقات 25 8
15 احتساب 25 8
16 کیا آپ بھی کچھ بننا چاہتے ہیں ؟ 26 8
17 طالب کا کردار، اقوالِ اکابر کی روشنی میں 28 8
18 عُلما، طلبا اور حُفاظ کی فضیلت 29 8
19 حفظِ متون 39 8
20 ملکۂ تحریر پیدا کرنے کا نسخہ 39 8
21 فوائد ثمینہ 39 8
22 پیش لفظ(از مؤلف) 43 2
24 القِسْمُ الأوّلُ في مُطالَعۃِ المُبتدِئیْنَ 47 1
25 معرب،مبنی 52 24
26 منصرف،غیر منصرف 52 24
27 معرفہ، نکرہ 56 24
28 مذکر، مؤنث 57 24
29 واحد، تثنیہ، جمع 59 24
30 [اعرابِ اسمائے متمکنہ] 61 24
31 عَناوین کے اعراب کی تعیین 63 24
32 ابتدائِ کلام میں واقع ہونے والے اسماء 65 24
33 درمیانی کلام میں واقع ہونے والا اسم اور اس کامابعد 66 24
34 تابع، متبوع کی تعیین 70 24
35 متعلقاتِ جملہ فعلیہ 74 24
36 تعیین اجزائِ جملہ فعلیہ 77 24
37 اجزاء جملہ فعلیہ واسمیہ کی شناخت 80 24
38 دو فعل ایک جگہ جمع ہوں 81 24
39 حروفِ معانی 82 24
40 قوانینِ مُہِمہْ 88 24
41 فوائد مختلفہ مہِمَّہ 90 24
42 کلماتِ ذو وجہین 90 24
43 مطالعۂ کتب کے بنیادی اصول 95 24
44 لغت دیکھنے کا طریقہ 96 24
45 القسمُ الثاني في مُطالعۃِ المتوسطِین 99 1
46 بسملہ و حمدلہ 101 45
47 تصلیہ: (صلاۃ علی النبي) 101 45
48 بوقت ابتدائے کتاب اسالیبِِ مصنفین 102 45
49 متن اور طرزِِ تحریر 106 45
50 شرح کی احتیاج اور اس کے دواعی 107 45
51 بہ وقتِ شرح رعایت کردہ اُمور 112 45
52 وہ امور جن کی بہ وقتِ شرح رعایت کی جاتی ہے 112 45
53 متن وشرح میں بہ غرضِ مخصوص مستعمل الفاظ 125 1
54 ماتن کی متانت 127 53
55 ماتن کا لفظِ ’’إعْلمْ‘‘اور اغراضِ ثلاثہ 130 53
56 شارح کی سخاوت 135 53
57 اسالیبِ شرح 135 53
58 فرائضِ شارحین 136 53
59 الفاظِ دفعِ وہم و اعتراض 138 53
60 مطالعۂ کتبِ عربیہ میں مُعِین ۳۸؍ ضروری قواعد وضوابط 143 53
61 وہ ضمائر جن کے مراجع بظاہر مذکور نہیں ہوتے 145 53
62 وجہِ تسمیہ، وجہِ عدول اور کلمۂ اِنَّمَا 147 53
63 شراح کا دلچسپ انداز استدلال اورکلماتِ جواب ودلیل 149 53
64 شرَّاح کا لفظِ ’’اِعلم‘‘ اور مقاصدِ اربعہ 158 53
65 طریقۂ استدلال اور مخالِفین پر رد 159 53
66 دورانِ شرح غیر کا قول نقل کرنے کی اَغراض 159 53
67 اجوبۂ مختلفہ اور اُن کی حیثیات 170 53
68 لفظِ ’’اَیْ‘‘ کا فلسفہ 174 53
69 فائدۂ نافعہ 182 53
70 شارحین کے مخصوص کلماتِ تعریض وکنایہ 184 53
71 عطف کا معیار، واؤ کی تعیین 188 53
72 خاتمۂ کتاب 193 1
73 مختصراً علم کی فضیلت 195 72
74 علوم وفنون کی اہمیت اور اُن میں آپسی ربط 196 72
75 علم المطالعہ کی اہمیت 197 72
77 ایک سچا طالبِ علم اور اُس کے صفات 198 72
78 آداب طالبِ علم 199 72
79 ایک کامیاب طالبِ علم 201 72
80 طریقۂ مطالعہ 203 72
81 ترقیم کے چند قواعد ورموز 207 72
82 رموز اوقاف 207 72
83 یومیہ محاسبہ 209 72
84 رموزِ عددی وکلماتِ مخففہ 210 72
85 کتاب کی فریاد اپنے حامِلین سے 211 72
86 اہم مآخذ ومراجع 212 72
Flag Counter