الفن کے موافق ہے، جس پر اعتراض کرنا بے سود، بے جا اور غیر مسموع ہے۔ یہ تو اِس صورت میں ہے کہ، اِس کے بعد کوئی کلمہ، کلماتِ استثناء میں سے مذکور نہ ہو(۱)۔
(۱)جیسے: شرحِ ابنِ عقیل میں تقدیمِ خبر کے جواز پرصاحبِ الفیہؒ رقم طراز ہے۔
م: وَالأَصْلُ فِيْ الأَخْبَارِ أَنْ تُؤَخَّرَا ((مدعی))
وَجَوَّزُوْا التَّقْدِیْمَ إِذْ لاَ ضَرَرَا
ش: الأَصلُ تقدیمُ المُبتدأِ وَتأخیرُ الخبرِ((مدعی)) وَیَجوزُ تَقدیمُہٗ إِذا لمْ یَحصُلْ بِذلکَ لُبسٌ أَوْ نَحوہٗ عَلَی مَا سَیُبیّنُ، فَتقوْلُ: قَائمٌ زَیْدٌ، وَقائمٌ أبوْہٗ زیدٌ، وَأبوہٗ مُنْطلقٌ زَیدٌ، وَفيْ الدَّارِ زَیدٌ، وَعِندَکَ عَمرٌو۔ (شرح ابن عقیل:۱۹۴)
دوسری مثال: کتاب الطہارۃ: اکتفی((المصنف)) بلفظ الواحد، مع کثرۃ الطہارات((نقض))، ((لأن الأصل أن المصدر لایثنی ولایجمع))؛ لکونہا اسم جنس یشمل جمیع أنواعہا وأفرادہا، فلاحاجۃ إلی لفظ الجمع۔ (شرح وقایہ:۵۰)
ملاحظہ: دلائل میں مذکور الاصل فی ہٰذا الباب ، یا الاصل سے ذکر کردہ دلیل کی مراد اصلِ مقرر عند اہل الفن ہے، لہٰذا مختلف فیہ مسئلہ کے فریقین میں سے ہر ایک کے دلائل کی دلیل الاصل (فریقین نے نزدیک مسلم)سے بیان نہیں کی جاسکتی؛ ہاں ! اگر کسی موقع پر دونوں کے دلائل پر لفظِ الاصل آیا ہو تو اس میں ضرور کوئی تاویل ہوگی، جیسے ھدایہ میں ہے:
قال: اذا جنیٰ العبد جنایۃً خطأً، قیل لمَولاہٗ: إمّا ان تدفعہ بہا، أوْ تفدیہ۔ وقال الشافعيؒ: جنایتہ في رقبتہ یباعُ فیہا، إلا أنْ یقضي المولیٰ الأرش۔ وفائدۃ الاختلاف في اتباع الجاني بعد العتقِ، والمسئلۃُ مختلفۃ بین الصحابۃ۔
لہ: ((أنّ الاصل)) في موجب الجنایۃِ أن یجبَ علیٰ المتلفِ ، لأنہ ہو الجاني؛ إلا أن العاقلۃَ تتحمل عنہ، ولاعاقلۃَ للعبد، لأن العقْل عندہ بالقرابۃِ، ولاقرابۃَ بین العبد ومولاہ، فتجبُ في ذمتہ، کما في الذمي، ویتعلقُ برقبتہ، یباع فیہ، کما في الجنایۃ علیٰ المالِ۔
ولنا: ((أن الاصل ۱؎)) في الجنایۃِ علیٰ الآدمي حالۃَ الخطأِ أنْ تتباعد عن الجاني، تحرّزاً عن استئصالہ والإحجافِ بہ، اذ ہو معذور فیہ ((حیث لمْ)) یتعمّد الجنایۃَ، وتجبُ علیٰ عاقلۃِ الجاني اذا کان لہ عاقلۃٌ، والمولیٰ عاقلتہ، لأن العبد یستنصر بہ، والأصل: في العاقلۃِ عندنا النصرۃ۔
۱؎ قولہ: لنا ان الاصل…، فیہ بحث! وہو ان الحکم في المسئلۃِ مختلف، فإن حکمہا عندنا الوجوبُ علیٰ المولیٰ، وعندہ الوجوبُ علیٰ العبد کما ذکرنا؛ وبنائہ علیٰ اصلٍ، ونحن علیٰ اصلٍ، فمن این یکون لأحدنا حجۃٌ علیٰ الاٰخرِ؟ ویمکنُ أن یقالَ: أن قولہ: الاصلُ في موجب الجنایۃِ أن یجبَ علیٰ المتلفِ باطلٌ، فإن اصلہ ذالکَ في موجب جنایۃِ العمدِ أوْ الخطأِ، الأولُ مسلّمٌ ولایفیدُ! إذ الکلامُ في الخطأِ، والثاني وہو عینُ النزاعِ۔ (ھدایہ رابع: ۶۱۷)