یاتو اِس بِنا پر کہ جوابِ ثانی، جواب اول پر متفرع ہے۔
یا اِس بنا پر کہ پہلا جواب اِشَارَۃً، دَلاَلَۃً یاکِنَایَۃًہے، اور دوسرا جواب بِالتَّصْرِیْحِ ہے۔
یا اِس بنا پر کہ پہلا جواب ضعیف ہے اور دوسرا قوی۔
قاعدہ۲۳): شارحین کا عَلاَ اَنَّہُ(جواب بالعِلاوَہ)، مَعَ اَنَّہُ، مَعَ مَا فِیْہِ، مَعَ ہٰذَا، مَعَ ذالِکَ یا اِن کے موافق کسی اَور لفظ کا ذکر کرنا کسی سوال کے جواب دینے کے بعد ہو تواِس سے مقصود ایک جواب سے دوسرے جواب کی طرف عدول کرنا ہوتا ہے، گویا یہاں پر ایک سوال کے دو جواب دینا مقصود ہوتا ہے(۱)۔
قاعدہ۲۴): مصنف کے مُدّعیٰ کے بعد شراح کا وَالاَصْلُ فِي ھٰذا البَابِ یا اِس کے مثل کلام کرنے سے غرض یہ ہوتی ہے کہ، مصنف کا ذکر کردہ مسئلہ اصلِ مقرر عند اہل
ـوہو مرجوٌّ فیہا فيْ کل زمانٍ، ولایرجیٰ مع الحبل۔(ھدایہ ۲؍۳۵۷)
فائدۂ نافعہ: یاد رہے کہ خصم کی دلیل توڑ دینے سے اُن کے مطلوب اور مدعیٰ کا باطل ہونا ضروری نہیں ، ممکن ہے کہ ایک مطلوب کے کئی دلائل ہوں ، جن تمام دلائل کو توڑا نہیں گیا۔ ہاں ! جب خصم کی مذکورہ دلیل ٹوٹ جائے گی تو معلِّل کو اُس دلیل میں تغیر کیے بغیر کوئی چارۂ کار نہ ہوگا۔
وَلاَ یَلزَمُ مِن بُطلانِ الدَّلیلِ بُطلانُ المَدلولِ، لِجَوازِ أَنْ یَکونَ لِمَدلولٍ وَاحدٍ دلائلُ شَتَّی، فَبُطلانُ واحدٍ مِنھا لَمْ یُبطلہٗ، فاذا بَطلَ الدَّلیلُ فلامَنَاص للمُعلِّل سِوَی التَّغیِیرِ وَالتَّبدِیلِ۔ (رشیدیہ:۳۵)
(۱)عَلَی أنَّا نَقولُ: جواب کے موقع پر استعمال کیا جاتا ہے، جب کے اِس کے بعد اُس جواب سے جو اِس کے ماقبل مذکور ہوچکا ہوقوی جواب ہو، اور اِس علی کو ’’عِلاوہ‘‘ کے ساتھ تعبیر کرتے ہیں ۔ یہ علی جارہ ہے، اور یہ ماقبل مذکور کے متعلق ہوتا ہے، اور کبھی ’’اضراب‘‘ کے لیے اور کبھی ’’استدراک‘‘ کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ (مشکل ترکیبوں کا حل:۷۹)
جیسے: شرح عقائد میں ہے: م: وأمَّا العَقلُ فہوَ سببٌ للعلمِ (أَیضاً)۔ ش: صرَّحَ بذلکَ لمَا فیہِ من خِلافِ السُمنیَّۃ والمُلاحدۃ في جمیعِ النَّظریاتِ، وبعضِ الفَلاسفۃ في الالٰہیاتِ، (( بِنائً علی)) کثرۃِ الاختِلافِ وتَناقضِ الآرائِ۔
والجوابُ: (۱)أنَّ ذلکَ (أي الاختلافَ والتناقضَ) لِفسادِ النَّظرِ، فلایُنافيْ کوْنَ النظرِ الصحیحِ مُفیداً للعِلمِ۔ (۲)((عَلا أنّ مَا [أي الدلیل الذي] ذکرتمْ)) اِستدلالٌ بنَظر العَقلِ، ففیہِ إِثباتُ مَا (النظر) نَفیتُمْ، فیَتناقضُ قَولکمْ۔ (شرح عقائد:۱۹)
ملاحظہ: اِس کی ایک مثال قاعدہ:۱؍ میں ذکر ہوچکی ہے۔