العَامِّ (إِذَا کَانَ المَحْمُوْلُ قِسْماً وَاحِداً)، یا حَمْلُ المُتَعَدِّدِ عَلَی غَیْرِ المُتَعَدِّدِ (اِذَا کَانَ المَحْمُولُ مَجْمُوْعَ الاَقْسَامِ) [یعنی حمل الشيء علیٰ نفسہ] کی صورت میں لازم آتا ہے، تو شارح عدد کو درمیان میں بڑھاکر جواب دیتے ہیں کہ، یہ اقسامِ مذکورہ محمول (خبر) ہی واقع نہیں ہیں کہ اِس پر یہ اعتراض کیا جائے۔
کبھی اسم عدد کے قائم مقام مُنْقَسِمَۃٌ اِلیٰ… ذکر فرما تے ہیں ، اور اُس مقام کا مقامِ تقسیم میں ہونا یہ خبرِ محذوف پر مرجِح اور قرینۂ دالہ ہوگا۔
کبھی مُنْحَصِرَۃٌ في… فرماتے ہیں ، جب کہ اُس کے بعد کوئی دلیل حصر موجود ہو، ہَذَا فِي اَکْثَرِ الاِسْتِعْمَالِ، وَلَیْسَتِ القَاعِدَۃُ ہٰذِہِ کُلِیَّۃً۔
فائدہ: مخفی نہ رہے کہ کبھی مصنفین اقسامِ شیٔ کو ذکر کرتے وقت ہر قِسم پر لفظِ مِنْہا کو بڑھاتے ہیں ،ایسے مقامات پر لفظ مِنْہا اکثر اِس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اِس مَقسم کے اقسام اُن ذکر شدہ اقسام میں منحصر نہیں ہیں (۱)، چوں کہ مِنْہا کے زیادہ کرنے کی غرض بھی یہی ہو تی ہے؛ اِس لیے کہ مِنْ تبعیضیہ ہے، اگر یہ غرض اِس سے حاصل نہ ہو تو مِنْ کا استعمال ہی لَغو ہوجائے گا۔ فَعُلِمَ اَنَّ ذِکْرَہَا لِفَائِدَۃِ عَدَمِہٖ، لاَ لِعَدَمِ الفَائِدَۃِ۔[گویا منہا:کو ذکر کرنا عدمِ انحصارکے فائدہ کے لیے ہے، نہ کہ عدمِ فائدہ یعنی بے کار وبے ضرورت ہے۔]
اِسی طرح مِنْ کا استعمال خَواصِّ شیْٔ پر بھی ہوتا ہے، کَمَا قَالَ جَمَالُ الدِّیْنْ عُثْمَانُ بنُ الحَاجِبِؒ في کِتَابِہٖ الکَافِیَۃِ: وَمِنْ خَوَاصِّہٖ: (أي خواص الاسمِ) دُخُوْلُ
ـ لہٰذا مصنف کا ’’الکَلِمَۃُ اِِسْمٌ‘‘ کہ :کلمہ اسم ہے، کہنا ایسے موقع پر حمل الخاص علی العام لازم آتا ہے۔ اور اگر یوں کہا جائے: الکلمۃ اسم وفعل وحرف، تو یہ بھی صحیح نہیں ہے؛ کیوں کہ اس وقت حملِ متعدد بر غیرِ متعدد لازم آئے گا؛ یہ بھی کہنا صحیح نہ ہوگا۔ اِس نقض کو دور کرنے کے لیے شارح مقسم اور اقسام کے درمیان ’’ثَلاَثَۃُ أَقْسَامٍ‘‘ کی عبارت کو بڑھاتے ہیں ۔
معلوم ہونا چاہیے کے یہ نقض اُس صورت میں لازم آئے گا جب کے اُس مقسم کی اقسام زیادہ ہوں ؛ ورنہ تو یہ نقض لازم نہ آئے گا۔
(۱) جیسے: فصلٌ: في تعریفِ طریقِ المرادِ بالنصوصِ۔ اعلمْ: أن لمعرفَۃِ المرادِ بالنصوصِ طُرُقاً: منہا…، منہا…، منہا…۔ (اصول الشاشی: ۴۹)