فائدہ۲]:اور کبھی ایسا ہو تا ہے کہ مصنف مخالفین میں سے کسی کے قول کو اپنے دعویٰ کی پختگی کے لئے سند بنا کر لے آتے ہیں تو شارحین اُس قول کو نقل فرما کر یہ بیان کرتے ہیں کہ: اے مخالفین! تم لوگ اِس قول سے استدلال نہیں کرسکتے؛ اِس لیے کہ خود یہ قول ضعیف ہے، قابل سند نہیں ، اور نہ ہمارے خلاف حجت ہوسکتا ہے(۱)۔
یااِس لیے کہ یہ قول تو صحیح ہے؛ مگر تم اِس سے استدلال غلط پیرایے پر کر رہے ہو؛ کیوں کہ اُن کی عبارت کا سیاق وسباق ایسے مطلب پر دلالت کر رہا ہے جو تمھارے حق میں مضر، غیر نافع ہے(۲)۔
ـپرکوئی کتاب نازل نہیں کی۔ اِن یہودیوں کے اِس قول کو توڑنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: {مَنْ أَنْزَلَ الْکِتَابَ الَّذِيْ جٓائَ بِہٖ مُوْسیٰ} اے یہودیوں ! تم حضرت موسیٰ پر توریت کے نزول کے قائل ہو پھر تمہارا بہ طور سلبِ کلی کہ یہ کہنا کہ: ’’اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے کسی بشر پر کوئی چیز بھی نازل نہیں فرمائی‘‘ کیسے صحیح ہے؟ (نور الانوارص:۸۲)
نیز امام دار الہجرت حضرت امام مالکؒ کا قول کہ: وضو میں ولاء شرط ہے: واستدلَّ أنہ ا واظب علیہ، فکیف یقول بالایجاب الکلي مع أن أبا داود رویٰ في سننہ: أنہ نسي مسح رأسہ في وضوء ہ فذکر بعد فراغہ فمسحہ ببلل کفہ۔(حاشیۂ نورالانوار) فہٰذا سلب جزئيّ یکفي لرفع الایجاب الکلي۔ مرتب
(۱) جیسے: کتاب الرضاع میں صاحبِ ہدایہؒ نے فرمایا ہے: م: قَلیلُ الرَّضاعِ وَکثیرہٗ سَوائٌ إِذَا حَصلَ فِي مُدّۃِ الرَضاعِ یَتعلَّقُ بہِ التَّحریمُ۔ ش: وَقالَ الشافعي: لایَثبتُ التحریمُ إِلاَّبخمسِ رَضعاتٍ، لقَولہں : لاتُحرِّمُ المَصَّۃُ وَلاالمَصّتانِ، وَلاالإملاجَۃُ وَلاالإِمْلاجَتانِ؛ وَلنَا قَولہٗ تَعالَی: {وَاُمَّھٰتُکُمْ اللاَّتِیْ أَرْضَعْنَکُمْ}الایۃَ۔ وقولُہ ں : یَحرُمُ من الرَّضاعِ ما یَحرمُ من النَّسبِ؛ من غیرِ فصلٍ۔ولأنَّ الحرمۃَ وإِنْ کانتْ لِشبھۃِ البَعضیَّۃِ الثابتۃِ بنُشورِ العظمِ وإِنباتِ اللحمِ؛ لٰکنَّہٗ أمرٌ مُبطَنٌ، فتعلَّقَ الحکمُ بفعلِ الاِرضاعِ، ((ومَا رواہٗ الشافعی مَردودٌ بالکتابِ أوْ منسوخٌ بہِ))۔ (ہدایہ ۲؍ ۳۵۰)
(۲) جیسے: امام شافعی ؒ کے نزدیک وضو میں نیت وترتیب کی فرضیت ثابت کرتے ہیں ، اُن کے قول ومستدل کو اور احناف کی طرف سے رد کو صاحب شرح وقایہ اِس طرح تحریر فرماتے ہیں : والنیۃ، وترتیبٌ نُصَّ علیہ۔ ش: أي الترتیب المذکور في نصّ القرآن، وکلاھما فرضان عندہ (الشافعیؒ)، أما النیّۃُ فلقولہں :إنما الاعمال بالنیات، وجوابنا أن الثواب منوط بالنیۃ اتفاقاً۔ یعنی اعمال کے حکم اخروی کے ثواب کا مدارنیت پر ہے نہ کہ حکم دنیوی (وجود) کا مدار، گویا بغیر نیت کے وضو ہوجائے گا۔
وأما الترتیب فلقولہ تعالی: فاغسلوا وجوھکم، فیفرض تقدیم غسل الوجہ، فیفرض تقدیم الباقي مرتباً؛ لأن تقدیم غسل الوجہ مع عدم الترتیب في الباقي خلاف الاجماع، ((قلنا: المذکور غ