Deobandi Books

انوار المطالع فی ھدایات المطالع

160 - 214
	فائدہ۱]: کبھی اُس مذہب یا فن والے کے قول میں تعارض ثابت کرنا ہوتا ہے، اور کبھی اُس خصم کا کسی وقت مُدعیٰ کو تسلیم کرنا، بیان ہو تا ہے(۱)، اور کبھی اُس کا قول ذکر کرکے اُس کے معتقدین پر چوٹ کرنا مقصود ہو تا ہے، کہ تمہارا مُعتقَدعلیہ اِسی بات کا قائل تھا جو تم کو مخالف معلوم ہو رہی ہے(۲)۔
                                              
ـکیا ہے: وماذکرَ محمد:أنَّ الدَّہنَ والریحانَ علی الظِّئرِ، فَذلکَ منْ عادۃِ أہلِ الکوفۃِ۔ (ہدایہ ۳؍۳۰۵)، یعنی بچے کے تیل، خوشبو کا خرچ دایہ پر نہ ہوگا، رہا امامِ محمدؒ کا قول تو وہ اہلِ کوفہ کے عرف پر مبنی ہے۔
	(۱)جیسے: البینۃ علی المدعی والیمین علی من انکر۔ قاعدۂ کلیہ سے حضراتِ صاحبین نے بابِ حدود اور لعان کو خاص کرلیا ہے، کہ اِن دونوں میں منکر پر یمین نہ ہوگی؛ ورنہ (اِن کے مسلک کے مطابق) قسم سے انکار پر مدعیٰ علیہ کو حکمی طور پر مقر ماننا لازم آئے گا جس میں شبہ ہے؛ کیوں کہ وہ حقیقتاً تو اقرار نہیں کر رہا، اور حدود اور لعان (جو حد ہی کے معنیٰ میں ہے) شبہ سے ساقط ہوجاتے ہیں ؛ لہٰذا نکول کا فائدہ مرتب نہ ہوگا۔
	حضرت امام صاحبؒ فرماتے ہیں کہ: بابِ حدود ولعان کی طرح بابِ نکاح میں بھی مدعیٰ علیہ پر یمین نہ آئے گی؛ کیوں کہ( امام صاحبؒکے یہاں ) قسم سے انکار کی صورت میں منکر کو باذل(بہ طیبِ خاطر دینے والا) شمار کیا جاتا ہے، اور نکاح میں بذل صحیح نہیں ہے کہ، عورت یوں کہے کہ: تو میرا شوہر نہیں ہے؛ لیکن مَیں باذلہ بن کر اپنے آپ کو تیرے نکاح میں دیتی ہوں ۔
	اب حضراتِ صاحبین کی طرف سے کوئی نقض کرے کہ: آپ نے حدیثِ مشہور میں والیمینُ علیٰ من انکر میں تخصیص کی ہے یہ صحیح نہیں ہے، اِس کا جواب یہ ہے کہ: آپ نے اگرحدود ولعان کو خاص کیا ہے تو ہم نے نکاح وغیرہ کو بھی خاص کر لیا ہے۔ (ہدایہ ۳؍۲۰۵)
	فإن قیل: ھٰذا التعلیل مخالف للحدیث المشھور، وھو قولہں : والیمین علی من أنکر، قلنا: خص منہ الحدود واللعان، فجاز تخصیص ھٰذہ الصوَر (النکاح، والرجعۃ، والفيء في الإیلاء، والرق، والاستیلاد، والنسب، والولاء، والحدود، واللعان) بالقیاس۔ (کفایہ بحوالہ حاشیہ) 
	(۲)کبھی مخالفین کسی مدعیٰ میں سلب کلی کے قائل ہوتے ہیں تو اُس سلب کلی کی عمارت کو ڈھانے کے لیے اُن ہی کے معتقدات میں سے کسی ایک جزئیہ کو ثابت کرتے ہیں جس کو ایجاب جزئی کہا جاتا ہے، جیسے: قرآن کریم میں باری تعالیٰ کا ارشاد ہے{وَمَا قَدَرُوْا اللّٰہَ حَقَّ قَدْرِہٖ، إِذْ قَالُوْا مَا أَنْزَلَ اللّٰہُ عَلیٰ بَشَرٍ مِنْ شَيء قُلْ مَنْ أَنْزَلَ الْکِتَابَ الَّذِيْجآئَ بِہٖ مُوْسیٰ} ترجَمہ: اور اِن لوگوں (یہودیوں ) نے اللہ تعالیٰ کی جیسی قدر جاننا واجب تھی ویسی قدر نہیں پہچانی، جب کہ یوں کہہ دیا کہ: اللہ تعالیٰ نے کسی بشر پر کوئی بھی کتاب نازل نہیں کی، آپ کہہ دیجیے کہ: وہ کتاب کس نے نازل کی تھی جس کو موسیٰ لائے تھے؟۔ 
	اِس آیت میں ’’شییٍٔ‘‘  نکرہ تحت النفي ہے جو عموم کا فائدہ دیتا ہے، اور مفہوم یہ ہوگا کہ، اللہ تعالیٰ نے کسی بشر غ 


x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 أنْوَارُ المَطَالِعْ 1 1
3 جملہ حقوق بحقِ ناشر محفوظ ہیں 2 2
4 مطالعۂ کتب کے راہ نُما اصول 3 2
5 فہرست مضامین 5 2
6 کلمات توثیق ودعا 15 2
7 تقریظ حضرت الاستاذ مولانا قاری عبدالستار صاحب (استاذ حدیث وقراء ت دارالعلوم وڈالی) 17 2
8 مقدمہ 19 2
9 کام کی نوعیت اور کتاب میں رعایت کردہ اُمور 21 8
10 ایک نظر یہاں بھی 22 8
11 مصنف کا مختصر تعارف 22 8
12 مصنفؒ کی دیگر تصانیف 23 8
13 وقت باری تعالیٰ کا ایک قیمتی تحفہ 24 8
14 نظام الاوقات 25 8
15 احتساب 25 8
16 کیا آپ بھی کچھ بننا چاہتے ہیں ؟ 26 8
17 طالب کا کردار، اقوالِ اکابر کی روشنی میں 28 8
18 عُلما، طلبا اور حُفاظ کی فضیلت 29 8
19 حفظِ متون 39 8
20 ملکۂ تحریر پیدا کرنے کا نسخہ 39 8
21 فوائد ثمینہ 39 8
22 پیش لفظ(از مؤلف) 43 2
24 القِسْمُ الأوّلُ في مُطالَعۃِ المُبتدِئیْنَ 47 1
25 معرب،مبنی 52 24
26 منصرف،غیر منصرف 52 24
27 معرفہ، نکرہ 56 24
28 مذکر، مؤنث 57 24
29 واحد، تثنیہ، جمع 59 24
30 [اعرابِ اسمائے متمکنہ] 61 24
31 عَناوین کے اعراب کی تعیین 63 24
32 ابتدائِ کلام میں واقع ہونے والے اسماء 65 24
33 درمیانی کلام میں واقع ہونے والا اسم اور اس کامابعد 66 24
34 تابع، متبوع کی تعیین 70 24
35 متعلقاتِ جملہ فعلیہ 74 24
36 تعیین اجزائِ جملہ فعلیہ 77 24
37 اجزاء جملہ فعلیہ واسمیہ کی شناخت 80 24
38 دو فعل ایک جگہ جمع ہوں 81 24
39 حروفِ معانی 82 24
40 قوانینِ مُہِمہْ 88 24
41 فوائد مختلفہ مہِمَّہ 90 24
42 کلماتِ ذو وجہین 90 24
43 مطالعۂ کتب کے بنیادی اصول 95 24
44 لغت دیکھنے کا طریقہ 96 24
45 القسمُ الثاني في مُطالعۃِ المتوسطِین 99 1
46 بسملہ و حمدلہ 101 45
47 تصلیہ: (صلاۃ علی النبي) 101 45
48 بوقت ابتدائے کتاب اسالیبِِ مصنفین 102 45
49 متن اور طرزِِ تحریر 106 45
50 شرح کی احتیاج اور اس کے دواعی 107 45
51 بہ وقتِ شرح رعایت کردہ اُمور 112 45
52 وہ امور جن کی بہ وقتِ شرح رعایت کی جاتی ہے 112 45
53 متن وشرح میں بہ غرضِ مخصوص مستعمل الفاظ 125 1
54 ماتن کی متانت 127 53
55 ماتن کا لفظِ ’’إعْلمْ‘‘اور اغراضِ ثلاثہ 130 53
56 شارح کی سخاوت 135 53
57 اسالیبِ شرح 135 53
58 فرائضِ شارحین 136 53
59 الفاظِ دفعِ وہم و اعتراض 138 53
60 مطالعۂ کتبِ عربیہ میں مُعِین ۳۸؍ ضروری قواعد وضوابط 143 53
61 وہ ضمائر جن کے مراجع بظاہر مذکور نہیں ہوتے 145 53
62 وجہِ تسمیہ، وجہِ عدول اور کلمۂ اِنَّمَا 147 53
63 شراح کا دلچسپ انداز استدلال اورکلماتِ جواب ودلیل 149 53
64 شرَّاح کا لفظِ ’’اِعلم‘‘ اور مقاصدِ اربعہ 158 53
65 طریقۂ استدلال اور مخالِفین پر رد 159 53
66 دورانِ شرح غیر کا قول نقل کرنے کی اَغراض 159 53
67 اجوبۂ مختلفہ اور اُن کی حیثیات 170 53
68 لفظِ ’’اَیْ‘‘ کا فلسفہ 174 53
69 فائدۂ نافعہ 182 53
70 شارحین کے مخصوص کلماتِ تعریض وکنایہ 184 53
71 عطف کا معیار، واؤ کی تعیین 188 53
72 خاتمۂ کتاب 193 1
73 مختصراً علم کی فضیلت 195 72
74 علوم وفنون کی اہمیت اور اُن میں آپسی ربط 196 72
75 علم المطالعہ کی اہمیت 197 72
77 ایک سچا طالبِ علم اور اُس کے صفات 198 72
78 آداب طالبِ علم 199 72
79 ایک کامیاب طالبِ علم 201 72
80 طریقۂ مطالعہ 203 72
81 ترقیم کے چند قواعد ورموز 207 72
82 رموز اوقاف 207 72
83 یومیہ محاسبہ 209 72
84 رموزِ عددی وکلماتِ مخففہ 210 72
85 کتاب کی فریاد اپنے حامِلین سے 211 72
86 اہم مآخذ ومراجع 212 72
Flag Counter