فائدہ۱]: کبھی اُس مذہب یا فن والے کے قول میں تعارض ثابت کرنا ہوتا ہے، اور کبھی اُس خصم کا کسی وقت مُدعیٰ کو تسلیم کرنا، بیان ہو تا ہے(۱)، اور کبھی اُس کا قول ذکر کرکے اُس کے معتقدین پر چوٹ کرنا مقصود ہو تا ہے، کہ تمہارا مُعتقَدعلیہ اِسی بات کا قائل تھا جو تم کو مخالف معلوم ہو رہی ہے(۲)۔
ـکیا ہے: وماذکرَ محمد:أنَّ الدَّہنَ والریحانَ علی الظِّئرِ، فَذلکَ منْ عادۃِ أہلِ الکوفۃِ۔ (ہدایہ ۳؍۳۰۵)، یعنی بچے کے تیل، خوشبو کا خرچ دایہ پر نہ ہوگا، رہا امامِ محمدؒ کا قول تو وہ اہلِ کوفہ کے عرف پر مبنی ہے۔
(۱)جیسے: البینۃ علی المدعی والیمین علی من انکر۔ قاعدۂ کلیہ سے حضراتِ صاحبین نے بابِ حدود اور لعان کو خاص کرلیا ہے، کہ اِن دونوں میں منکر پر یمین نہ ہوگی؛ ورنہ (اِن کے مسلک کے مطابق) قسم سے انکار پر مدعیٰ علیہ کو حکمی طور پر مقر ماننا لازم آئے گا جس میں شبہ ہے؛ کیوں کہ وہ حقیقتاً تو اقرار نہیں کر رہا، اور حدود اور لعان (جو حد ہی کے معنیٰ میں ہے) شبہ سے ساقط ہوجاتے ہیں ؛ لہٰذا نکول کا فائدہ مرتب نہ ہوگا۔
حضرت امام صاحبؒ فرماتے ہیں کہ: بابِ حدود ولعان کی طرح بابِ نکاح میں بھی مدعیٰ علیہ پر یمین نہ آئے گی؛ کیوں کہ( امام صاحبؒکے یہاں ) قسم سے انکار کی صورت میں منکر کو باذل(بہ طیبِ خاطر دینے والا) شمار کیا جاتا ہے، اور نکاح میں بذل صحیح نہیں ہے کہ، عورت یوں کہے کہ: تو میرا شوہر نہیں ہے؛ لیکن مَیں باذلہ بن کر اپنے آپ کو تیرے نکاح میں دیتی ہوں ۔
اب حضراتِ صاحبین کی طرف سے کوئی نقض کرے کہ: آپ نے حدیثِ مشہور میں والیمینُ علیٰ من انکر میں تخصیص کی ہے یہ صحیح نہیں ہے، اِس کا جواب یہ ہے کہ: آپ نے اگرحدود ولعان کو خاص کیا ہے تو ہم نے نکاح وغیرہ کو بھی خاص کر لیا ہے۔ (ہدایہ ۳؍۲۰۵)
فإن قیل: ھٰذا التعلیل مخالف للحدیث المشھور، وھو قولہں : والیمین علی من أنکر، قلنا: خص منہ الحدود واللعان، فجاز تخصیص ھٰذہ الصوَر (النکاح، والرجعۃ، والفيء في الإیلاء، والرق، والاستیلاد، والنسب، والولاء، والحدود، واللعان) بالقیاس۔ (کفایہ بحوالہ حاشیہ)
(۲)کبھی مخالفین کسی مدعیٰ میں سلب کلی کے قائل ہوتے ہیں تو اُس سلب کلی کی عمارت کو ڈھانے کے لیے اُن ہی کے معتقدات میں سے کسی ایک جزئیہ کو ثابت کرتے ہیں جس کو ایجاب جزئی کہا جاتا ہے، جیسے: قرآن کریم میں باری تعالیٰ کا ارشاد ہے{وَمَا قَدَرُوْا اللّٰہَ حَقَّ قَدْرِہٖ، إِذْ قَالُوْا مَا أَنْزَلَ اللّٰہُ عَلیٰ بَشَرٍ مِنْ شَيء قُلْ مَنْ أَنْزَلَ الْکِتَابَ الَّذِيْجآئَ بِہٖ مُوْسیٰ} ترجَمہ: اور اِن لوگوں (یہودیوں ) نے اللہ تعالیٰ کی جیسی قدر جاننا واجب تھی ویسی قدر نہیں پہچانی، جب کہ یوں کہہ دیا کہ: اللہ تعالیٰ نے کسی بشر پر کوئی بھی کتاب نازل نہیں کی، آپ کہہ دیجیے کہ: وہ کتاب کس نے نازل کی تھی جس کو موسیٰ لائے تھے؟۔
اِس آیت میں ’’شییٍٔ‘‘ نکرہ تحت النفي ہے جو عموم کا فائدہ دیتا ہے، اور مفہوم یہ ہوگا کہ، اللہ تعالیٰ نے کسی بشر غ