سے مناسَبتبَیْنَ المَعْنَی اللُّغَوِيِّ وَالمَعْنَی المَنْقُوْلِ بیان کرنا مقصود ہوتا ہے، چاہے وہ منقولِ اصطلاحی ہو یا منقولِ شرعی۔
شارح کا إنّما عَرَّفَہٗ بِہِ کہنا مصنف کے جمہور سے ہٹ کر تعریف کرنے کی ’’وجہِ عدول‘‘ بیان کرنا ہے۔ گویا یہ عبارت مصنف پر ہونے والے سوالِ مقدر -مُخالفۃُ العُمدۃِ الجَمہورَ، فِي حکمِ الخَطأِ- کا جواب ہے کہ: مصنفؒ کی ذکر کردہ تعریف جمہور کی تعریف سے اخصر واشمل ہے، جب کہ جمہور کی تعریف غیر مأمون ہے، بہ ایں وجہ کہ جمہور کی تعریف میں قوانینِ تعریفات کی مخالَفت ہے (۱)، مثلاً: اُس تعریف میں معنیٔ تضمني، التزامی یا معنیٔ مجازی کا ارتکاب ہے(۲)، یا وہ تعریف جامع مانع نہیں ۔ اور یہ امر مسلَّم ہے کہ مُخَالَفَۃُ العُمدۃِ
ـالفاعلِ کلاماً تامّاً، فلاتَخلو عن نقصانٍ((وجہِ تسمیہ))۔ (شرح مأۃ عامل:۳۷)
فائدہ: سَمَّی یُسَمِّي تَسْمِیَۃً کا شمار اُن افعال میں ہوتا ہے جو متعدی بہ دو مفعول ہیں ، اور یہ قاعدہ ہے کہ متعدی بدو مفعول کا جب فعل مجہول لایا جاتا ہے تو وہ مفعول اول کو رفع اور ثانی کو نصب دے گا؛ لہٰذا سَمَّی یُسَمِّي کے مجہول کے بعد دیکھو: اگر عبارت میں ایک مفعول کا ذکر ہے؟ تو اُسے نصب دیا جائے گا، اور ضمیر کو مفعول اول (نائب فاعل) قرار دو، اور اگر دونوں مفعول عبارت میں مذکور ہیں تو پہلے کو رفع اور دوسرے کو نصب دو۔
الأفعالُ المتعدِّیۃُ إلیٰ مَفعولینِ لیسَ أصلُہما مبتدأً وخبراً، کثیرۃٌ، وأکثرُہا إستعمالاً: کَسا، رَزَقَ، أطْعَمَ، سَقیٰ، زَوَّدَ، أسکَنَ، أعطیٰ۔ وجمیعُ الأفعالِ المتعدیَّۃِ إلیٰ مفعولینِ ویُستعاضُ فیہا عن المفعول الثَّانی بالجار والمجرور:أمَرَ، اسْتَغفَرَ، اخْتَارَ، کَنیّٰ، سَمیّٰ، دَعا، صَدَقَ، زَوَّجَ، کَالَ، نحو: أسْتَغفِرُ اللّہ ذنباً أی مِن الذَنْبِ۔
(۱) جیسے: ماتنِ تہذیب المنطق علامہ سعد الدین تفتازانیؒ نے تصور وتصدیق کی تقسیم نظری اور بدیہی سے کرنے کے بعد نظر کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا ہے: وہو: (أي النظر) ملاحظۃ المعقول لتحصیل المجہول۔ یعنی نظر: انجانی چیزوں کے حصول کے لیے جانی ہوئی چیزوں کو پیشِ نظر لاناہے۔
اِس پر شارح فرماتے ہیں کہ: ماتن کے لفظِ معلوم کے بجائے لفظِ معقول کو استعمال کرنے میں بہت سے فوائد ہیں : مِن جملہ اُن میں سے ایک فائدہ یہ ہے: التحرزعن الاستعمال اللفظ المشترک فی التعریف؛ (فإن العلم مشترک بین الصورۃ الحاصلۃ من الشيء، والاعتقاد الجازم المطابقِ للواقع)(شرحِ تہذیب: ۷)
(۲)وجہِ عدول کو بیان کرنا، جیسے: شارح تہذیب نے مرکب تام کی تعریف اِس طور پر کی ہے جس میں جمہور کی مخالَفت ہوئی ہے۔ محشیٔ شاہجہانی نے اِس کی وضاحت اِس طور پر فرمائی ہے:تامٌّ:أيْ یصِحُّ السُّکوتُ عَلیہِ، کزیدٌ قائمٌ۔ قال المُحشِّي:وإنمَا عَدلَ((وجہِ عدول)) عنْ التَّعریفِ المَشہورِ… شارح نے مرکبِ تام کی تعریفغ