مَفْعُوْلٌ لَہٗ، لاَمْ سَبَبِیَّۃ، بَاء سَبَبِیَّۃ، ایسے مواقع پر کبھی کبھی شراح اُس اعتراض اور وَہمِ ناشی کا منشا بھی لفظ ِ’’ مَعَ اَنَّ‘‘، ’’مَعَ مَا فِیْہِ‘‘ اور اِن جیسے الفاظ سے بیان فرمادیتے ہیں ، اسی طرح کبھی ’’اِنْ‘‘ وصلیہ (۱) لا کر بھی اُس اعتراض کا منشا بیان فرماتے ہیں (۲)۔
ـ ’’أنّ‘‘ مفتوحہ دس جگہوں پر آتا ہے: درمیانی کلام میں ، ’’عِلْم‘‘ کے بعد، ’’ظن‘‘ کے بعد، جب کہ مجرور ہو، مضاف الیہ ہو، ’’لو‘‘ کے بعد، ’’لولا‘‘ تحضیضیہ یا شرطیہ کے بعد، ’’مَن‘‘ شرطیہ کے بعد، ’’حتیٰ‘‘ جارہ یا عاطفہ کے بعد، ’’مذ ومنذ‘‘ کے بعد۔
(۱)’’اِن وصلیہ‘‘ در اصل واؤ کے ساتھ ’’وَاِنْ‘‘ مستعمل ہے، جس میں ’’واؤ‘‘ کو واوِمبالغہ اور ’’إن‘‘ کو ’’وصلیہ‘‘ کہا جاتا ہے، جس کی جزا محذوف ہوتی ہے؛ کیوں کہ عبارتِ ماقبل اُس جزائِ محذوف پر دلالت کرتی ہے؛ لیکن اِس کی تقدیری عبارت کیا نکلے گی؟ مندرجۂ ذیل حدیث اور اُس کی وضاحت ملاحظہ فرمائیں :
عنْ أبِي ذرٍث قالَ: أَتَیتُ النَّبيَّ ا وَعلیہِ ثَوبٌ أبیضَ وَہوَ نَائمٌ، ثمَّ أتیتُہ وَقد استیقَظَ، فَقال: ما مِنْ عَبدٍ قالَ: لا إلٰہَ إلا اللّٰہُ ثُمَّ مَاتَ علی ذلکَ إلاّ دَخلَ الجَنۃَ، قلتُ: وَإنْ زَنَی وَإنْ سرَقَ؟ قالَ: وَإنْ زَنی وَإنْ سرَقَ، قلت: وَإنْ زَنَی وَإنْ سرَقَ؟ قالَ: وَإنْ زَنی وَإنْ سرَقَ۔ قلتُ: وَإنْ زَنَی وَإنْ سرَقَ؟ قالَ: وَإنْ زَنی وَإنْ سرَقَ عَلَی رَغمِ أنفِ أبِي ذرٍ۔(مشکوٰۃ شریف،کتاب الایمان/رقم الحدیث:۲۶)
قولہ: ’’وإنْ زَنَی‘‘ قالَ ابنُ مالکٍ: حرفُ الاسْتِفہامِ فِي قَولہ ’’وَإنْ زَنَی‘‘ مُقدرٌ، وَلا بُدَّ منْ تَقدِیرِہ، أيْ یَدخُلُ الجَنۃَ وَإنْ زَنَی وَإنْ سَرقَ؟ وَالتقدیرُ: أَوَ إنْ زَنَی وَإنْ سَرقَ دَخَلَ الجَنَّۃَ؟ (مرقاۃ،ص:۱۸۵)
وَتُسمّٰی ہٰذہِ الواوُ ’’واوَ المُبالغَۃِ‘‘ و’’إنْ‘‘ بَعدَہا تُسمَّی ’’وَصلِیَّۃً‘‘، وَجَزائُ ہا مَحذُوفٌ لِدَلالۃِ مَاقَبلہا عَلیہِ۔(مرقات۱؍۱۸۶)
مذکورہ عبارت میں قول ابی ذرؓ کی حالت استفہام پر آقا اکے فرمان ’’وَإنْ زَنَی وَإنْ سرَقَ‘‘ کی تقدیر مذکورہ تفصیل کے مطابق اِس طرح ہوگی: ’’أیَدخُلُ الجنۃَ وَإنْ زَنَی وَإنْ سَرقَ‘‘،یا پھر ’’وَإنْ زَنَی وَإنْ سَرقَ دَخلَ الجَنَّۃَ‘‘ ہوگی جس میں شرط کو بہ غرضِ مبالغہ ذکر کیا گیا ہے، جو جوابِ شرط کا متقاضی نہیں ہے۔ اور’’وَإنْ صَلَّی وَصَامَ‘‘ کی وضاحت میں ملا علی قاری ؒاِس طرح ارقام فرماتے ہیں : ہٰذا الشَّرطُ اِعْتِرَاضٌ واردٌ للمُبَالغَۃِ،لا یَستدْعِي الجَوابَ۔ (مرقات۱؍۲۲۰، کتاب الایمان)
ترکیب: وإن زنی وإن سرق میں واو ملا علی قاریؒ کے نزدیک برائے مبالغہ ہے، جب کہ زمخشری کے نزدیک حالیہ ہے، اور شیخ رضی کے نزدیک اعتراضیہ ہے، اور بعض کے نزدیک عاطفہ ہے۔ اور ایسی جگہوں میں إن حرفِ شرط کو ’’وصلیہ‘‘ کہتے ہیں ، بہ معنیٰ اگرچہ، اور اِس کی جزاء وجوباًمحذوف ہوتی ہے، اور جملۂ متقدمہ عوضِ جزاء یا مثلِ جزاء ہوتا ہے، پھر شرط اپنی جزائِ محذوف سے مل کر جملۂ معترضہ،معطوفہ بہ قولِ بعض ، اور بہ قولِ زمخشری دخل الجنۃ کی ضمیر سے حال ہوگا۔ (ملخص من ایضاح العوامل)
(۲) اِنْ وصلیہ کی مثال قاعدہ نمبر۱۸؍ میں بیانِ ’’لمّا‘‘ کے تحت مقصدِ ثانی کے ضمن میں بالتفصیل آرہی ہے۔ مرتب