Deobandi Books

انوار المطالع فی ھدایات المطالع

146 - 214
مَفْعُوْلٌ لَہٗ، لاَمْ سَبَبِیَّۃ، بَاء سَبَبِیَّۃ، ایسے مواقع پر کبھی کبھی شراح اُس اعتراض اور وَہمِ ناشی کا منشا بھی لفظ ِ’’ مَعَ اَنَّ‘‘، ’’مَعَ مَا فِیْہِ‘‘ اور اِن جیسے الفاظ سے بیان فرمادیتے ہیں ، اسی طرح کبھی ’’اِنْ‘‘ وصلیہ (۱) لا کر بھی اُس اعتراض کا منشا بیان فرماتے ہیں (۲)۔
                                              
ـ	’’أنّ‘‘ مفتوحہ دس جگہوں پر آتا ہے: درمیانی کلام میں ، ’’عِلْم‘‘ کے بعد، ’’ظن‘‘ کے بعد، جب کہ مجرور ہو، مضاف الیہ ہو، ’’لو‘‘ کے بعد، ’’لولا‘‘ تحضیضیہ یا شرطیہ کے بعد، ’’مَن‘‘ شرطیہ کے بعد، ’’حتیٰ‘‘ جارہ یا عاطفہ کے بعد، ’’مذ ومنذ‘‘ کے بعد۔
	(۱)’’اِن وصلیہ‘‘ در اصل واؤ کے ساتھ ’’وَاِنْ‘‘ مستعمل ہے، جس میں ’’واؤ‘‘ کو واوِمبالغہ اور ’’إن‘‘ کو ’’وصلیہ‘‘ کہا جاتا ہے، جس کی جزا محذوف ہوتی ہے؛ کیوں کہ عبارتِ ماقبل اُس جزائِ محذوف پر دلالت کرتی ہے؛ لیکن اِس کی تقدیری عبارت کیا نکلے گی؟ مندرجۂ ذیل حدیث اور اُس کی وضاحت ملاحظہ فرمائیں :
	عنْ أبِي ذرٍث قالَ: أَتَیتُ النَّبيَّ ا وَعلیہِ ثَوبٌ أبیضَ وَہوَ نَائمٌ، ثمَّ أتیتُہ وَقد استیقَظَ، فَقال: ما مِنْ عَبدٍ قالَ: لا إلٰہَ إلا اللّٰہُ ثُمَّ مَاتَ علی ذلکَ إلاّ دَخلَ الجَنۃَ، قلتُ: وَإنْ زَنَی وَإنْ سرَقَ؟ قالَ: وَإنْ زَنی وَإنْ سرَقَ، قلت: وَإنْ زَنَی وَإنْ سرَقَ؟ قالَ: وَإنْ زَنی وَإنْ سرَقَ۔  قلتُ: وَإنْ زَنَی وَإنْ سرَقَ؟ قالَ: وَإنْ زَنی وَإنْ سرَقَ عَلَی رَغمِ أنفِ أبِي ذرٍ۔(مشکوٰۃ شریف،کتاب الایمان/رقم الحدیث:۲۶)
	قولہ: ’’وإنْ زَنَی‘‘ قالَ ابنُ مالکٍ: حرفُ الاسْتِفہامِ فِي قَولہ ’’وَإنْ زَنَی‘‘ مُقدرٌ، وَلا بُدَّ منْ تَقدِیرِہ، أيْ یَدخُلُ الجَنۃَ وَإنْ زَنَی وَإنْ سَرقَ؟ وَالتقدیرُ: أَوَ إنْ زَنَی وَإنْ سَرقَ دَخَلَ الجَنَّۃَ؟ (مرقاۃ،ص:۱۸۵)
	وَتُسمّٰی ہٰذہِ الواوُ ’’واوَ المُبالغَۃِ‘‘ و’’إنْ‘‘ بَعدَہا تُسمَّی ’’وَصلِیَّۃً‘‘، وَجَزائُ ہا مَحذُوفٌ لِدَلالۃِ مَاقَبلہا عَلیہِ۔(مرقات۱؍۱۸۶)
	مذکورہ عبارت میں قول ابی ذرؓ کی حالت استفہام پر آقا اکے فرمان ’’وَإنْ زَنَی وَإنْ سرَقَ‘‘ کی تقدیر مذکورہ تفصیل کے مطابق اِس طرح ہوگی: ’’أیَدخُلُ الجنۃَ وَإنْ زَنَی وَإنْ سَرقَ‘‘،یا پھر ’’وَإنْ زَنَی وَإنْ سَرقَ دَخلَ الجَنَّۃَ‘‘ ہوگی جس میں شرط کو بہ غرضِ مبالغہ ذکر کیا گیا ہے، جو جوابِ شرط کا متقاضی نہیں ہے۔ اور’’وَإنْ صَلَّی وَصَامَ‘‘ کی وضاحت میں ملا علی قاری ؒاِس طرح ارقام فرماتے ہیں : ہٰذا الشَّرطُ اِعْتِرَاضٌ واردٌ للمُبَالغَۃِ،لا یَستدْعِي الجَوابَ۔ (مرقات۱؍۲۲۰، کتاب الایمان)
	ترکیب:  وإن زنی وإن سرق میں واو ملا علی قاریؒ کے نزدیک برائے مبالغہ ہے، جب کہ زمخشری کے نزدیک حالیہ ہے، اور شیخ رضی کے نزدیک اعتراضیہ ہے، اور بعض کے نزدیک عاطفہ ہے۔ اور ایسی جگہوں میں إن حرفِ شرط کو ’’وصلیہ‘‘ کہتے ہیں ، بہ معنیٰ اگرچہ، اور اِس کی جزاء وجوباًمحذوف ہوتی ہے، اور جملۂ متقدمہ عوضِ جزاء یا مثلِ جزاء ہوتا ہے، پھر شرط اپنی جزائِ محذوف سے مل کر جملۂ معترضہ،معطوفہ بہ قولِ بعض ، اور بہ قولِ زمخشری دخل الجنۃ کی ضمیر سے حال ہوگا۔ (ملخص من ایضاح العوامل)
	(۲) اِنْ  وصلیہ کی مثال قاعدہ نمبر۱۸؍ میں بیانِ ’’لمّا‘‘ کے تحت مقصدِ ثانی کے ضمن میں بالتفصیل آرہی ہے۔ مرتب


x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 أنْوَارُ المَطَالِعْ 1 1
3 جملہ حقوق بحقِ ناشر محفوظ ہیں 2 2
4 مطالعۂ کتب کے راہ نُما اصول 3 2
5 فہرست مضامین 5 2
6 کلمات توثیق ودعا 15 2
7 تقریظ حضرت الاستاذ مولانا قاری عبدالستار صاحب (استاذ حدیث وقراء ت دارالعلوم وڈالی) 17 2
8 مقدمہ 19 2
9 کام کی نوعیت اور کتاب میں رعایت کردہ اُمور 21 8
10 ایک نظر یہاں بھی 22 8
11 مصنف کا مختصر تعارف 22 8
12 مصنفؒ کی دیگر تصانیف 23 8
13 وقت باری تعالیٰ کا ایک قیمتی تحفہ 24 8
14 نظام الاوقات 25 8
15 احتساب 25 8
16 کیا آپ بھی کچھ بننا چاہتے ہیں ؟ 26 8
17 طالب کا کردار، اقوالِ اکابر کی روشنی میں 28 8
18 عُلما، طلبا اور حُفاظ کی فضیلت 29 8
19 حفظِ متون 39 8
20 ملکۂ تحریر پیدا کرنے کا نسخہ 39 8
21 فوائد ثمینہ 39 8
22 پیش لفظ(از مؤلف) 43 2
24 القِسْمُ الأوّلُ في مُطالَعۃِ المُبتدِئیْنَ 47 1
25 معرب،مبنی 52 24
26 منصرف،غیر منصرف 52 24
27 معرفہ، نکرہ 56 24
28 مذکر، مؤنث 57 24
29 واحد، تثنیہ، جمع 59 24
30 [اعرابِ اسمائے متمکنہ] 61 24
31 عَناوین کے اعراب کی تعیین 63 24
32 ابتدائِ کلام میں واقع ہونے والے اسماء 65 24
33 درمیانی کلام میں واقع ہونے والا اسم اور اس کامابعد 66 24
34 تابع، متبوع کی تعیین 70 24
35 متعلقاتِ جملہ فعلیہ 74 24
36 تعیین اجزائِ جملہ فعلیہ 77 24
37 اجزاء جملہ فعلیہ واسمیہ کی شناخت 80 24
38 دو فعل ایک جگہ جمع ہوں 81 24
39 حروفِ معانی 82 24
40 قوانینِ مُہِمہْ 88 24
41 فوائد مختلفہ مہِمَّہ 90 24
42 کلماتِ ذو وجہین 90 24
43 مطالعۂ کتب کے بنیادی اصول 95 24
44 لغت دیکھنے کا طریقہ 96 24
45 القسمُ الثاني في مُطالعۃِ المتوسطِین 99 1
46 بسملہ و حمدلہ 101 45
47 تصلیہ: (صلاۃ علی النبي) 101 45
48 بوقت ابتدائے کتاب اسالیبِِ مصنفین 102 45
49 متن اور طرزِِ تحریر 106 45
50 شرح کی احتیاج اور اس کے دواعی 107 45
51 بہ وقتِ شرح رعایت کردہ اُمور 112 45
52 وہ امور جن کی بہ وقتِ شرح رعایت کی جاتی ہے 112 45
53 متن وشرح میں بہ غرضِ مخصوص مستعمل الفاظ 125 1
54 ماتن کی متانت 127 53
55 ماتن کا لفظِ ’’إعْلمْ‘‘اور اغراضِ ثلاثہ 130 53
56 شارح کی سخاوت 135 53
57 اسالیبِ شرح 135 53
58 فرائضِ شارحین 136 53
59 الفاظِ دفعِ وہم و اعتراض 138 53
60 مطالعۂ کتبِ عربیہ میں مُعِین ۳۸؍ ضروری قواعد وضوابط 143 53
61 وہ ضمائر جن کے مراجع بظاہر مذکور نہیں ہوتے 145 53
62 وجہِ تسمیہ، وجہِ عدول اور کلمۂ اِنَّمَا 147 53
63 شراح کا دلچسپ انداز استدلال اورکلماتِ جواب ودلیل 149 53
64 شرَّاح کا لفظِ ’’اِعلم‘‘ اور مقاصدِ اربعہ 158 53
65 طریقۂ استدلال اور مخالِفین پر رد 159 53
66 دورانِ شرح غیر کا قول نقل کرنے کی اَغراض 159 53
67 اجوبۂ مختلفہ اور اُن کی حیثیات 170 53
68 لفظِ ’’اَیْ‘‘ کا فلسفہ 174 53
69 فائدۂ نافعہ 182 53
70 شارحین کے مخصوص کلماتِ تعریض وکنایہ 184 53
71 عطف کا معیار، واؤ کی تعیین 188 53
72 خاتمۂ کتاب 193 1
73 مختصراً علم کی فضیلت 195 72
74 علوم وفنون کی اہمیت اور اُن میں آپسی ربط 196 72
75 علم المطالعہ کی اہمیت 197 72
77 ایک سچا طالبِ علم اور اُس کے صفات 198 72
78 آداب طالبِ علم 199 72
79 ایک کامیاب طالبِ علم 201 72
80 طریقۂ مطالعہ 203 72
81 ترقیم کے چند قواعد ورموز 207 72
82 رموز اوقاف 207 72
83 یومیہ محاسبہ 209 72
84 رموزِ عددی وکلماتِ مخففہ 210 72
85 کتاب کی فریاد اپنے حامِلین سے 211 72
86 اہم مآخذ ومراجع 212 72
Flag Counter