اِعْتَرَضَ عَلَیْہِ، یَرِدُ عَلَیْہٖ، اَوْرَدَعَلَیْہٖ، یَعْتَرِضُ، فِیْہٖ نَظْرٌ، ہُوَ/ہٰذَا مَنْظُوْرٌفِیْہٖ، فِیْہٖ بَحْثٌ، فِیْہٖ کَلامٌ، ہٰہُنَا نَظْرٌ، ہٰہُنَا بَحْثٌ، فِیْہٖ بَحْثٌ، ہٰہُنَا کَلامٌ، ہٰذَا مَنْقُوْضٌ بِـ…، نُقِضَ، اِنْ قِیْلَ، اِنْ قُلْتَ، لَوْ قِیْلَ، فِیْہٖ تَوَہُّمٌ، فِیْہٖ وَہْمٌ، فِیْہٖ اِشْکَالٌ، اِسْتَشْکَلَ عَلَیْہٖ؛ قَالُوا، فَسَّرُوْا، اِعْتَرَضُوْا، تَکَلَّمُوْا فِیْہٖ، اَنْتَ خَبِیْرٌ، نُوْقِضَ عَلَیْہٖ، لایَخْفَی مَا فِیْہٖ، لایُقَالُ، قِیْلَ(۱)۔
فائدہ۲-: کبھی پہلے اِس اعتراض کا جواب دیتے ہیں پھر اِس کے بعد کہتے ہیں :
فَلانَقْضَ، فَلایُنْتَقَضُ، فَلاوُرُوْدَ، فَلایَرِدُ، فَلااِعْتِرَاضَ، فَلایُعْتَرَضُ، فَلایُقَالُ، فَلاکَلامَ، فَلابَحْثَ، فَلانَظْرَ، فَانْدَفَعَ المَحْذُوْرُ، فَلامَحْذُوْرَ۔ یا پھر اِن کے ہم مثل الفاظ لاتے ہیں ۔
فائدہ۳-: کبھی شارحِ مصنف پر ہونے والے نقض کو اشارۃًبیان کرتے ہیں ،جو رَوِش اور سِیاقِ کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ، یہاں یہ اعتراض ہوتا ہے، اور اِس کا یہ جواب دیا
ـ [۲]لفظِ ’’قیل‘‘: علامہ شرنبلالیؒ نے فرمایا ہے: ’’قیل‘‘ لیس کل ما دخلت علیہ یکون ضعیفاًًً۔ ہر وہ مسئلہ جس پر ’’قیل‘‘ آیا ہو اُس کا ضعیف ہونا ضروری نہیں ۔ اور اِسی سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ: یہ جو مشہور ہوگیا ہے کہ قیل اور یقال اور اِس جیسے صیغے صیغۂ تمریض ہیں ،اِس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ صیغے اِسی معنیٰ کے لیے وضع کیے گیے ہیں ، اور ہر وقت اِسی مقصد کے لیے مستعمل ہوتے ہیں ؛ بلکہ یہ بات صرف اُس وقت ہے جب کہ اِس کے قائل کے التزام سے یا کلام کے سیاق وسباق سے یا کسی دوسرے قرینے سے یہ بات معلوم ہوجائے؛ ورنہ یہ تمریض کے لیے نہیں ہوں گے۔ (مبادیات فقہ:۷۴)
[۳]’’ینبغي،لاینبغي‘‘ متقدمین فقہاء کے یہاں اِس کا استعمال عام ہے؛ لیکن متأخرین کے نزدیک ’’ینبغي‘‘ مستحب کے لیے اور ’’لاینبغي‘‘ مکروہ کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اور بہ قول المصباح المنیر:’’ینبغي‘‘ کے معنیٰ کبھی ’’یجب‘‘ اور کبھی ’’یندب‘‘ کے ہوتے ہیں ، یعنی جیسا موقع ہوگا اُسی کے مطابق استعمال ہوگا۔ علامہ شامی نے کہا ہے: ’’ینبغي‘‘ سے وجوب مراد لیا جاتا ہے۔
[۴]’’لابأس‘‘: کلمۂ لا بأس کا استعمال ترکِ اولیٰ کے لیے خاص نہیں ہے؛بلکہ مندوب میں بھی اِس کا استعمال ہوتاہے۔ (مبادیات فقہ ص:۷۵) مرتب
فائدہ: حضراتِ شراح کے یہاں جواب دینے کے دو طریق ہیں : جواب تسلیمی، جواب انکاری: ہر ایک کی تعریف ’’دستور الطلباء‘‘ میں ملاحظہ فرمائیں ۔ مرتب
(۱) فیہ نظر اور فیہ بحث کی مثال ’’شارحین کے مخصوص کلماتِ تعریض وکنایہ‘‘ کے ضمن میں ملاحظہ فرمائیں ۔ مرتب