…………………………………………
ـہے۔ (ہدایہ وصاحبِ ہدایہ کا تعارف ص:۲۶)
(۳)ہدایہ، بدائع اور شروحِ ہدایہ وکنز کا طریقہ: بقول محدث کبیر حضرت مفتی سعید صاحب ’’مد اللّٰہ فیوضہ‘‘: اِن(کتابوں ) میں نقلِ اقوال کے وقت مصنفین کی عادت یہ رہی ہے کہ، وہ امام صاحب کا قول آخر میں ذکر کرتے ہیں ، پھر ہر قول کی دلیل بیان کرتے ہیں ، پھر امام صاحبؒ کے قول کی دلیل اِس طرح بیان کرتے ہیں کہ وہ دیگر حضرات کے دلائل کے جوابات پر بھی مشتمل ہوتی ہے۔ مصنفین کا یہ انداز بذات خود امام صاحب کے قول کی ترجیح ہے؛ الاّ یہ کہ وہ حضرات کسی اَور قول کے راجح ہونے کی تصریح کریں ۔ (آپ فتویٰ کیسے دیں ؟ ص:۹۵)
لہٰذا ایسی کتابوں کا مطالعہ کرتے ہوئے اقوال مرجوحہ کے دلائل کو بالترتیب دھیان میں رکھیں ؛ تاکہ جوابات کا سمجھنا آسان ہوجائے؛ لیکن یہ یاد رہے کہ، کبھی صاحب ہدایہ وغیرہ کسی معترض کی دلیل یا سوال کو ذکر کیے بغیر ہی جواب دیتے ہیں ، ایسے مواقع میں حواشی پر نظر رکھنا بے انتہا ضروری ہوتا ہے؛ اِس لیے کہ کتاب کے حواشی میں دسیوں کتابوں کا نچوڑ ذکر کیا جاتا ہے۔
(۳)کتب فقہ میں بالخصوص ہدایہ میں ’’عند فلانٍ‘‘ سے کسی فقیہ کی رائے یا امام کا مسلک بیان کرنا مقصود ہوتا ہے۔
عن فلانٍ سے کسی روایت اور قول کو نقل کرنا مقصود ہوتا ہے۔
بما تلونا کسی مسئلہ کے استدلال میں بیان کردہ ا ٓیت کی طرف اشارہ ہوتا ہے۔
بما روینا سے پہلے ذکر کردہ حدیث کی طرف اشارہ ہوتا ہے۔
بما ذکرنا سے ما قبل میں ذکر کردہ دلیل عقلی کی طرف اشارہ ہوتا ہے۔
لما بینا سے ماقبل میں ذکر کردہ آیت، حدیث یا دلیل عقلی ہر ایک کی طرف اشارہ ہوتا ہے۔ (ہدایہ وتعارف بتغییرص:۲۴)
فائدہ:ربما یذکر الدلیلُ العقلي بعد العقلي، کأنہ یؤمي إلیٰ لِمِّہ۔ قال في نتائج الافکار: دأب المصنف (صاحب الھدایۃ) أنہ یقول بعد ذکر دلیلٍ علیٰ مُدعیٰ: ’’وہٰذا لأن‘‘ الخ، ویرید بہ ذکر دلیلٍ لمّيٍّ بعد أن ذکر دلیلاً إنّیاً۔ (مقدمۂ ھدایہ۳؍۳)
جب ایک دلیلِ عقلی کے بعد دوسری دلیل عقلی لائی جاتی ہے، اُس وقت اِس دلیل سے ماقبل میں ذکر کردہ دلیل عقلی (دلیلِ إنی) کی ’’لِمَ‘‘ اور علت یعنی دلیل ’’لِميّ‘‘ بیان کرنا مقصود ہوتا ہے۔ صاحبِ ہدایہ کا یہ اسلوب رہا ہے کہ، وہ مدعیٰ پر دلیل ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں : ’’وہٰذا لأَنّ الخ‘‘، اگر اِس جیسی عبارت کہیں اَور بھی آجائے تو اِس کا مطلب یہ ہوگا کہ، یہ دلیل ’’إنيّ‘‘ کے بعد دلیل لمی بیان ہو رہی ہے۔
دلیلِ لمّی وانّی کی تفصیلی مثال قاعدہ ۲۳؍ کے حاشیہ میں ملاحظہ فرمائیں ، اور دلیل لمی اور انی کی تعریف ’’دستور الطلباء‘‘ میں ملاحظہ فرمائیں ۔مرتب
(۴)[۱]لفظِ’’قالوا‘‘ کا استعمال فقہاء وہاں کرتے ہیں جہاں فقہاء کا اختلاف ہو۔ (مبادیات فقہ:۷۴) غ