Deobandi Books

انوار المطالع فی ھدایات المطالع

139 - 214
…………………………………………
                                              
ـہے۔ (ہدایہ وصاحبِ ہدایہ کا تعارف ص:۲۶)
	(۳)ہدایہ، بدائع اور شروحِ ہدایہ وکنز کا طریقہ: بقول محدث کبیر حضرت مفتی سعید صاحب ’’مد اللّٰہ فیوضہ‘‘: اِن(کتابوں ) میں نقلِ اقوال کے وقت مصنفین کی  عادت یہ رہی ہے کہ، وہ امام صاحب کا قول آخر میں ذکر کرتے ہیں ، پھر ہر قول کی دلیل بیان کرتے ہیں ، پھر امام صاحبؒ کے قول کی دلیل اِس طرح بیان کرتے ہیں کہ وہ دیگر حضرات کے دلائل کے جوابات پر بھی مشتمل ہوتی ہے۔ مصنفین کا یہ انداز بذات خود امام صاحب کے قول کی ترجیح ہے؛ الاّ یہ کہ وہ حضرات کسی اَور قول کے راجح ہونے کی تصریح کریں ۔ (آپ فتویٰ کیسے دیں ؟ ص:۹۵) 
	لہٰذا ایسی کتابوں کا مطالعہ کرتے ہوئے اقوال مرجوحہ کے دلائل کو بالترتیب دھیان میں رکھیں ؛ تاکہ جوابات کا سمجھنا آسان ہوجائے؛ لیکن یہ یاد رہے کہ، کبھی صاحب ہدایہ وغیرہ کسی معترض کی دلیل یا سوال کو ذکر کیے بغیر ہی جواب دیتے ہیں ، ایسے مواقع میں حواشی پر نظر رکھنا بے انتہا ضروری ہوتا ہے؛ اِس لیے کہ کتاب کے حواشی میں دسیوں کتابوں کا نچوڑ ذکر کیا جاتا ہے۔
	(۳)کتب فقہ میں بالخصوص ہدایہ میں ’’عند فلانٍ‘‘ سے کسی فقیہ کی رائے یا امام کا مسلک بیان کرنا مقصود ہوتا ہے۔ 
	عن فلانٍ سے کسی روایت اور قول کو نقل کرنا مقصود ہوتا ہے۔ 
	بما تلونا کسی مسئلہ کے استدلال میں بیان کردہ ا ٓیت کی طرف اشارہ ہوتا ہے۔ 
	بما روینا سے پہلے ذکر کردہ حدیث کی طرف اشارہ ہوتا ہے۔ 
	بما ذکرنا سے ما قبل میں ذکر کردہ دلیل عقلی کی طرف اشارہ ہوتا ہے۔ 
	لما بینا سے ماقبل میں ذکر کردہ آیت، حدیث یا دلیل عقلی ہر ایک کی طرف اشارہ ہوتا ہے۔ (ہدایہ وتعارف بتغییرص:۲۴)
	فائدہ:ربما یذکر الدلیلُ العقلي بعد العقلي، کأنہ یؤمي إلیٰ لِمِّہ۔ قال في نتائج الافکار: دأب المصنف (صاحب الھدایۃ) أنہ یقول بعد ذکر دلیلٍ علیٰ مُدعیٰ: ’’وہٰذا لأن‘‘ الخ، ویرید بہ ذکر دلیلٍ لمّيٍّ بعد أن ذکر دلیلاً إنّیاً۔ (مقدمۂ ھدایہ۳؍۳)
	جب ایک دلیلِ عقلی کے بعد دوسری دلیل عقلی لائی جاتی ہے، اُس وقت اِس دلیل سے ماقبل میں ذکر کردہ دلیل عقلی (دلیلِ إنی) کی ’’لِمَ‘‘ اور علت یعنی دلیل ’’لِميّ‘‘ بیان کرنا مقصود ہوتا ہے۔ صاحبِ ہدایہ کا یہ اسلوب رہا ہے کہ، وہ مدعیٰ پر دلیل ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں : ’’وہٰذا لأَنّ الخ‘‘، اگر اِس جیسی عبارت کہیں اَور بھی آجائے تو اِس کا مطلب یہ ہوگا کہ، یہ دلیل ’’إنيّ‘‘ کے بعد دلیل لمی بیان ہو رہی ہے۔ 
	دلیلِ لمّی وانّی کی تفصیلی مثال قاعدہ ۲۳؍ کے حاشیہ میں ملاحظہ فرمائیں ، اور دلیل لمی اور انی کی تعریف ’’دستور الطلباء‘‘ میں ملاحظہ فرمائیں ۔مرتب
	(۴)[۱]لفظِ’’قالوا‘‘ کا استعمال فقہاء وہاں کرتے ہیں جہاں فقہاء کا اختلاف ہو۔ (مبادیات فقہ:۷۴)   غ


x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 أنْوَارُ المَطَالِعْ 1 1
3 جملہ حقوق بحقِ ناشر محفوظ ہیں 2 2
4 مطالعۂ کتب کے راہ نُما اصول 3 2
5 فہرست مضامین 5 2
6 کلمات توثیق ودعا 15 2
7 تقریظ حضرت الاستاذ مولانا قاری عبدالستار صاحب (استاذ حدیث وقراء ت دارالعلوم وڈالی) 17 2
8 مقدمہ 19 2
9 کام کی نوعیت اور کتاب میں رعایت کردہ اُمور 21 8
10 ایک نظر یہاں بھی 22 8
11 مصنف کا مختصر تعارف 22 8
12 مصنفؒ کی دیگر تصانیف 23 8
13 وقت باری تعالیٰ کا ایک قیمتی تحفہ 24 8
14 نظام الاوقات 25 8
15 احتساب 25 8
16 کیا آپ بھی کچھ بننا چاہتے ہیں ؟ 26 8
17 طالب کا کردار، اقوالِ اکابر کی روشنی میں 28 8
18 عُلما، طلبا اور حُفاظ کی فضیلت 29 8
19 حفظِ متون 39 8
20 ملکۂ تحریر پیدا کرنے کا نسخہ 39 8
21 فوائد ثمینہ 39 8
22 پیش لفظ(از مؤلف) 43 2
24 القِسْمُ الأوّلُ في مُطالَعۃِ المُبتدِئیْنَ 47 1
25 معرب،مبنی 52 24
26 منصرف،غیر منصرف 52 24
27 معرفہ، نکرہ 56 24
28 مذکر، مؤنث 57 24
29 واحد، تثنیہ، جمع 59 24
30 [اعرابِ اسمائے متمکنہ] 61 24
31 عَناوین کے اعراب کی تعیین 63 24
32 ابتدائِ کلام میں واقع ہونے والے اسماء 65 24
33 درمیانی کلام میں واقع ہونے والا اسم اور اس کامابعد 66 24
34 تابع، متبوع کی تعیین 70 24
35 متعلقاتِ جملہ فعلیہ 74 24
36 تعیین اجزائِ جملہ فعلیہ 77 24
37 اجزاء جملہ فعلیہ واسمیہ کی شناخت 80 24
38 دو فعل ایک جگہ جمع ہوں 81 24
39 حروفِ معانی 82 24
40 قوانینِ مُہِمہْ 88 24
41 فوائد مختلفہ مہِمَّہ 90 24
42 کلماتِ ذو وجہین 90 24
43 مطالعۂ کتب کے بنیادی اصول 95 24
44 لغت دیکھنے کا طریقہ 96 24
45 القسمُ الثاني في مُطالعۃِ المتوسطِین 99 1
46 بسملہ و حمدلہ 101 45
47 تصلیہ: (صلاۃ علی النبي) 101 45
48 بوقت ابتدائے کتاب اسالیبِِ مصنفین 102 45
49 متن اور طرزِِ تحریر 106 45
50 شرح کی احتیاج اور اس کے دواعی 107 45
51 بہ وقتِ شرح رعایت کردہ اُمور 112 45
52 وہ امور جن کی بہ وقتِ شرح رعایت کی جاتی ہے 112 45
53 متن وشرح میں بہ غرضِ مخصوص مستعمل الفاظ 125 1
54 ماتن کی متانت 127 53
55 ماتن کا لفظِ ’’إعْلمْ‘‘اور اغراضِ ثلاثہ 130 53
56 شارح کی سخاوت 135 53
57 اسالیبِ شرح 135 53
58 فرائضِ شارحین 136 53
59 الفاظِ دفعِ وہم و اعتراض 138 53
60 مطالعۂ کتبِ عربیہ میں مُعِین ۳۸؍ ضروری قواعد وضوابط 143 53
61 وہ ضمائر جن کے مراجع بظاہر مذکور نہیں ہوتے 145 53
62 وجہِ تسمیہ، وجہِ عدول اور کلمۂ اِنَّمَا 147 53
63 شراح کا دلچسپ انداز استدلال اورکلماتِ جواب ودلیل 149 53
64 شرَّاح کا لفظِ ’’اِعلم‘‘ اور مقاصدِ اربعہ 158 53
65 طریقۂ استدلال اور مخالِفین پر رد 159 53
66 دورانِ شرح غیر کا قول نقل کرنے کی اَغراض 159 53
67 اجوبۂ مختلفہ اور اُن کی حیثیات 170 53
68 لفظِ ’’اَیْ‘‘ کا فلسفہ 174 53
69 فائدۂ نافعہ 182 53
70 شارحین کے مخصوص کلماتِ تعریض وکنایہ 184 53
71 عطف کا معیار، واؤ کی تعیین 188 53
72 خاتمۂ کتاب 193 1
73 مختصراً علم کی فضیلت 195 72
74 علوم وفنون کی اہمیت اور اُن میں آپسی ربط 196 72
75 علم المطالعہ کی اہمیت 197 72
77 ایک سچا طالبِ علم اور اُس کے صفات 198 72
78 آداب طالبِ علم 199 72
79 ایک کامیاب طالبِ علم 201 72
80 طریقۂ مطالعہ 203 72
81 ترقیم کے چند قواعد ورموز 207 72
82 رموز اوقاف 207 72
83 یومیہ محاسبہ 209 72
84 رموزِ عددی وکلماتِ مخففہ 210 72
85 کتاب کی فریاد اپنے حامِلین سے 211 72
86 اہم مآخذ ومراجع 212 72
Flag Counter