کے یہ بھی مِن جملہ تکمیل میں سے ہے؛ کیوں کہ تکمیل کی دو قسمیں ہیں : ابراز، اعتراض۔
ابراز: وہ تکمیل ہے جو کلامِ سابق یا کلامِ لاحق سے ماخوذ ہو۔اِس کی دو صورتیں ہیں :
ابراز میں کسی مبہم کی تفسیر کلمۂ ’’اَوْ‘‘ یا بیان یا عطف تفسیری سے ہو تو اِس کا نام ’’تفسیر با للفظ‘‘ ہے۔
ابراز میں کسی مبہم کی تفسیر کلمۂ ’’یَعْنِیْ، مَعْنَاہٗ(۱)، المَعْنیٰ، مُرَادُہٗ، المُرَادُمِنْہٗ، الظَّاہِرُ اَنَّ المُرَادَ یا اِن کے ہم معنیٰ الفاظ سے ہو تو اِس کا نام ’’تفسیر بالمعنی الظاہر‘‘ ہے۔
اعتراض: وہ تکمیل ہے جو سابق یا لا حق کلام سے ماخوذ نہ ہو۔
فائدہ: شراح کے نزدیک تو ضیحِ مبہم کے لئے معدودے چند الفاظ موضوع ہیں ، جن میں سے لفظِ: تَوْضِیْحُہٗ، بَیَانُہٗ، اَرَادَبِہٖ کَذَا بھی ہیں ، اور کبھی کبھی تو ضیح کے لئے مثالیں ذکر کر دیتے ہیں ، اور کبھی لفظ کی تفسیر-بجائے لفظِ أيکے- کسی اَور لفظِ اَوضح سے کرتے ہیں ، اور کبھی واو حرف عطف کے ساتھ تفسیر کرتے ہیں ؛ البتہ توضیحِ مبہم میں ’’اَيْ‘‘ کی مَزیَّت(۲) زیادہ ہے، اور واؤ -حرفِ تفسیر- کے ساتھ اِس سے کم ہے، اورلفظِ أي اور واؤ حرفِ کے بغیر تفسیر کرنا اپنی مزیت میں کم ہے۔
۲-الفاظ کی تحقیق سے فراغت کے بعد شُراح پر واجب اور ضروری ہے کہ، تعریفات اور قواعد کے فوائدِ قیود بیان کریں ۔
(۱) جیسے: صاحب ہدایہؒ نے اجارہ کے ضمن میں جہاں یہ ذکر کیا ہے کہ، کیا دایہ کے لیے اجرت کے طور پراُس کے کپڑے اور کھانے کو طے کیا جاسکتا ہے؟ حضرت امام صاحبؒ کے یہاں جائز ہے، جب کہ حضرات صاحبین عدم جواز کے قائل ہیں ۔ قال(ای القدوری): ویجوز (استیجار الظِئر) بطعامِہا وکسوتِہا استحساناً عندَ أبي حنیفۃؒ، وقالا: لا یجوزُ؛ لأنَّ الأُجرۃَ مَجہولۃٌ…؛ لیکن جامع صغیر کی عبارت اِس طور پر ہے: وفي الجامع الصغیر: فإنْ سمَّی الطعامَ دراہمَ ووصَف جنسَ الکسوۃِ وأجلَہا وذروعَہا فہو جائز، یعنیْ بالاجماع۔ اِس سے حضراتِ صاحبین کے یہاں طعام کو اجرت کے طور پر دینے کا جواز معلوم ہوتا ہے؛ لہٰذا اِس اغلاق کو صاحبِ ہدایہؒ دور فرماتے ہیں : و((معنیٰ تسمیۃِ الطعامِ)) دراہمَ: أنْ یُجعلَ الأُجرۃُ دراہمَ، ثمّ یُدفعُ الطعامُ مکانَہا، وہٰذا لاجہالۃَ فیہ۔ ((صاحبین کے دو مختلف اقوال کے اختلاف کو دور فرمایا)) (ہدایہ ۳؍۳۰۴)
(۲) مزیت: علم، کرم اور شجاعت وغیرہ میں فضیلت جس کی وجہ سے دوسرے سے امتیاز ہوجائے۔ خوبی، عمدگی۔