قانون۸-: عَلی الاَکْثَرِ کا لفظ بعض مقامات پر بہ تقدیر علی الا ستعمال الا کثر ہوتاہے، جس میں اس بات کی طرف اشارہ ہوتاہے کہ، یہاں اِس کا بر عکس استعمال بھی ہے جو کہ ضعیف اور اقل ہے۔ اس کے مقابل شق پر مصنفین علی الاقل کا لفظ بولتے ہیں ۔
بعضے مقامات پرعَلی الاَکْثَرِ بہ تقدیر علیٰ المذہبِ الا کثرِ ہوتا ہے؛ مگر اِس معنیٰ میں یہ لفظ بہت کم استعمال ہوتا ہے؛ ہاں ! فی الاکثر -أي فی مذہب الا کثر- کثیر الاستعمال ہے، جس سے اس بات کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہوتا ہے کہ اِس کے بالمقابل کوئی مذہب ضعیف بھی ہے۔ یہی حال اُس وقت ہے جب کہا جاتا ہے: علی الاَصحِّ(۲)، ای علی المذہب الاصح (۳)۔
(۱) جیسے: الالفُ وَالنُّونُ الزَّائدتَانِ:(۱)إنْ کانتَا في اسمٍ فشرطُہٗ: العَلمیَّۃُ، کعِمرانَ (۲)أَوْ [في] صفۃٍ: [۱]فاِنتفائُ فَعْلانَۃٍ، وقِیلَ:[۲]وُجودُ فَعْلَی۔ ((وَمِنْ ثَمَّ)) اُخْتلفَ فِی رَحمانَ[أہوَ غیرُ منصرفٍ؟ لانتفاء رحمانۃ، أمْ منصرفٌ لعدَم وجودِ رحمیٰ۔]؛ دونَ سَکرانَ ونَدمانٍ۔ (کافیہ مع وافیہ:۳۰)
(۲) ویُسنُّ الاتیانُ بسجودِ السہوِ بعدَ السلامِ، ویکتفيْ بتسلیمۃٍ واحدۃٍ عنْ یَمینِہ فيْ الأصحِّ۔ (نورالایضاح:۱۰۸) اِس پر محشی فرماتے ہیں : قولہ: الأصح، وقیل تلقاء وجھہ، فرقاً بین سلام القطع وسلام السھو، قالہ فخر الاسلام۔ وفي الھدایۃ: ویأتی بتسلیمتین، ھو الصحیح۔ گویا سجدۂ سہو کے وقت دونوں طرف سلام صحیح ہے، ایک سلام اصح ہے۔
ملاحظہ: یاد رہے کہ اسمِ تفضیل کا ایک وصفی معنیٰ ہوتا ہے اور ایک تفضیلی معنیٰ(دوسرے کے بالمقابل زیادتی)، بنا بریں مثلا: أعلم اسمِ تفضیل جہاں اپنے مفضل کے لیے افضلیت (اعلمیت) کو ثابت کرتا ہے، وہاں مفضل علیہ کے لیے مادۂ اشتقاق فضیلت (علمیت) کو ثابت کرتا ہے؛ لہٰذا ’’زیدٌ أعْلمُ منْ عَمرٍو‘‘ یعنی زید عمرو کے بالمقابل اعلم ہے اُسی وقت کہا جائے گا جب کہ عمرو بھی عالم ہو۔ اِس سے یہ واضح ہوگیا کہ عَلیٰ الأصَحَّ کے بالمقابل مذہب صحیح ضرور ہے، گویا ایسی جگہوں میں اصحیت کی نفی مقصود ہوتی ہے نہ کہ صحت کی۔
(۳)کتب فقہیہ میں مفتیٰ بہ اقوال کی تعبیرات مختلف الفاظ سے کی جاتی ہیں :
(۱)وعلیہ الفتویٰ (۲)وبہ یُفتیٰ (۳)وبہ نأخذُ (۴)وعلیہ الاعتمادُ (۵)وعلیہ العَملُ الیومَ (۶)وعلیہ عملُ الأمۃِ (۷)وہو الصحیحُ (۸) وہو الأصحُّ (۹)وہو الظَّاہرُ (۱۰)وہو الأظہرُ (۱۱)وہو غ