قانون۹-:کبھی دعویٰ یا بیانِ تقسیم کے موقع پر بالضرورت(۱) کا لفظ استعمال کرنا اِس بات کی طرف مشیر ہوتا ہے کہ، یہ دعویٰ یا تقسیم بدیہی ہے، تجشُّم استدلال کی ضرورت نہیں ۔ اور کبھی یہ لفظ کسی مخالف پر ردکرنے کے لئے بھی بولتے ہیں (۲)۔
ـالمختارُ في زمانِنَا (۱۲)وہو الاشبہُ (۱۳)وہو الأوجہُ۔
جن میں سے بعضے الفاظ بعض سے مؤکد ہیں ، مثلاً: لفظِ ’’فتویٰ‘‘ لفظِ ’’صحیح، أصح، اشبہ، مختار‘‘ سے آکد ہے، اور بہ یفتیٰ، الفتویٰ علیہ سے زیادہ مؤکد ہے، اور لفظِ أصح، صحیح سے اور احوط، احتیاط سے زیادہ مؤکد ہے۔ (مقدمۂ شرح وقایہ)مرتب
(۱)بالضرورت: ہي حصول العلمِ بلا نظرٍ وکسبٍ، وکلُّ ما عُلمَ بالضرورۃ فہوَ لایحتاجُ إلیٰ دلیلٍ۔ یعنی بالضرورت کا لفظ جہاں کتابوں میں مستعمل ہے اُس سے مراد یہ ہے کہ، اِس مسئلے کا علم بغیر غور و فکرا ور بغیر ترتیب مقدمات کے حاصل ہوتا ہے۔ اِسی کاہم معنیٰ بالبداہت کا لفظ ہے؛ کیوں کہ کسی علم کا حصول اگر دلیل سے ہوا ہے تو اُسے ’’نظری، کسبی اور استدلالی‘‘کہتے ہیں ، اور اگر وہ علم بلاکسی دلیل کے حاصل ہوا ہے تو اُسے ’’ضروری‘‘ کہتے ہیں ۔ علمِ ضروری کی سات قسمیں ہیں : بدیہی، نظری، حِسی، وِجدانی، حدسی، تجربی اور تواتری؛ گویا بدیہی ضروری کی ایک قسم ہے۔
اور کبھی بلا اختیار حاصل ہونے والے علم پر ’’ضروری‘‘ کا اطلاق ہوتا ہے، جب کہ بالاختیار حاصل ہونے والے علم پر ’’استدلالی‘‘ کا اطلاق ہوتا ہے۔ضروری اور بدیہی کے اَور بھی معانی ہیں ۔ تفصیل کے لیے النبراس شرح شرحِ عقائد (ص: ۶۷)کو ملاحظہ فرمائیں ۔
(۲)تہذیب المنطق کے مقدمہ میں تصور وتصدیق کے ضمن میں فرمایا ہے:
العلمُ إنْ کان إذعانا للنسبۃ فتصدیقٌ، وإلا فتصورٌ۔ ویقتسمانِ(أي التصورُ والتصدیق) بـ((الضرورۃِ))، الضرورۃَ (أي البدیھیَ) والاکتسابَ بالنظرِ (أي النظري)۔ یعنی تصور وتصدیق دونوں نظری اور بدیہی میں سے حصہ بانٹ لیتے ہیں ۔ الحاصل ’’علم‘‘ کی کل چار قسمیں ہوئیں : تصورِ نظری، تصورِ بدیہی، تصدیقِ نظری، تصدیقِ بدیہی۔ شارح فرماتے ہیں : قولہ: بالضرورۃ، إشارۃٌ إلی أن ھٰذہ القسمۃَ بدِیھیۃٌ، لایحتاج إلی تجشُّمِ الاستدلالِ، کما ارتَکبہ القومُ۔(شرحِ تہذیب:۷)