میں مصنف کی جانب سے کسی معترض کے اعتراض کا جواب ٹپک رہا ہو(۱)۔
۲) غیرِ مقامِ دیباچہ میں لفظِ ’’اِعْلَمْ‘‘ کا ذکر کرنا بہ ایں غرض ہوتا ہے کہ، متعلم خبر دار ہوجائے اور غافل نہ رہے؛ کیونکہ آگے آنے والی بات طُلبا کے حق میں بے حد مفید ہے(۲)؛ لہٰذا طالب کو چاہیے کہ اس کو یاد کرلے اور مصنف کی اِس تنبیہ کو رائگاں نہ سمجھیں ۔
(۱)جیسے: شرحِ مأۃ عامل میں شارح ملا جامیؒ نے حمدوصلاۃ کے بعد فرمایا ہے: اعلمْ! أنّ العواملَ في النحوِ -علَی ما ألّفہ الشیخُ الامامُ أَفضلُ عُلمائِ الأنامِ عَبدُ القاہرِ بنُ عبدِ الرحمٰنِ الجُرجانيْ،سَقی اللّٰہُ ثراہٗ، وجعَل الجنّۃ مَثواہٗ- مأۃُ عاملٍ۔ (شرح مأۃ عامل)
(۲)لفظ ((إعلم))، جیسے صاحبِ ہدایت النحو نے جہاں پر مبتد اکی قسمِ ثانی کو ذکر کیا ہے اُس موقع پر لفظِ ’’اعلم‘‘ کو ذکر کیا ہے، جیسے: أقائم.8ُنِ الزَّیْدَانِ۔ جیسی مثالوں کی ترکیب میں نحات بڑی دِقت میں پڑے ہیں ۔ تفصیل حسبِ ذیل ہے:
در اصل اسمِ فاعل اور اسمِ مفعول کے عمل کرنے کے لیے دو شرطوں کا علی سبیل الجمع ہونا ضروری ہے: (۱)اسمِ فاعل اور اسمِ مفعول حال یا استقبال کے معنیٰ میں ہوں (۲) اِن سے پہلے مبتدا، ذوالحال، موصول، موصوف، ہمزۂ استفہام یاحرفِ نفی میں سے کسی ایک کا علیٰ سبیل منع الخلو ہونا ضروری ہے۔ اِن دو شرطوں پر اُن کا عمل کرنا مشروط ہے۔
یہاں قابل بحث امر یہ ہے کہ، اِس اسمِ فاعل ومفعول پر کیا اعراب آئے گا؟ تفصیل معلوم کرنے سے پہلے اِس کو معلوم کرلیں کہ جن چار شکلوں میں صیغۂ صفت سے پہلے مبتدا، ذو الحال، موصول اور موصوف ہوتو اُس صیغۂ صفت پر اعراب بہ وجہِ خبر، حال، صلہ اور صفت کے آئے گا؛ لیکن مسئلہ استفہام اور نفی کا ہے، کہ وہاں پر کوئی عامل ہی نہیں ہے جس کا یہ معمول ہو، جیسے: أقائمُنِ الزَّیْدَانِ۔ تو وہاں پر صیغۂ صفت کے اعراب میں کیا توجیہ کریں گے؟
اِس کی توجیہ کو سمجھنے سے پہلے یہ ذہن نشین فرمالیں کہ ایسی جگہوں پر کل چار صورتیں متصوَّر ہوسکتی ہیں : (۱)صیغۂ صفت اور معمول دونوں واحد ہوں ، جیسے: أقائمٌ زَیْدٌ۔ (۲) دونوں تثنیہ ہوں ، جیسے: أقائَمَانِ الزَّیْدَانِ (۳)صیغۂ صفت واحد اور معمول تثنیہ یا جمع ہوں ، جیسے: أقائمُنِ الزَّیْدَانِ (۴)اول تثنیہ یا جمع ہو، اور ثانی واحد ہو، جیسے: أقائمانِ زَیْدٌ۔ اِن شکلوں میں سے آخری شکل تو بہ قولِ جمہور صحیح نہیں ہے۔
رہی تین شکلیں ، اِن میں سے دوسری شکل: أقائَمَانِ الزَّیْدَانِ۔کہ اِس میں الزیدان مبتدا کی قسمِ اول ہے، اور قائمان خبر مقدم ہے۔ اِس مثال میں قائمان کو مبتدا کی قسمِ ثانی قرار نہیں دے سکتے؛ إلا أن یُجعلَ من قبیلِ أکَلوني البَراغیثُ۔ جب کہ پہلی شکل میں دونوں وجہیں مان سکتے ہیں ۔ تفصیل کتبِ نحو میں مسطور ہے۔
تیسری شکل: أقائمن الزیدانِ والی مثال کا یہاں بیان ہوگا، کہ یہاں قائمٌ کو رفع کس نے دیا؟ اگر قائمٌ کو مرفوع بہ وجہِ مبتدا مانیں تو یہ صحیح نہیں ؛ کیوں کہ مبتدا مسند الیہ ہوتا ہے اور یہاں قائمٌ مسند ہے نہ کہ مسند الیہ۔اور اگر قائمٌ کو مرفوع بہ وجہِ الزیدانِ کی خبر مانیں تو بھی صحیح نہیں ہے؛ کیوں کہ اِس صورت میں مبتدا تثنیہ ہے اور خبر واحد ہے، گویادونوں میں مطابَقت مفقود ہے۔بہ ایں وجہ نحات نے مجبوراً اِس مثال کو مبتدا کی قسمِ ثانی قرار دیا، جس کو ((بہ وجہِ دِقتِ غ