Deobandi Books

انوار المطالع فی ھدایات المطالع

131 - 214
میں مصنف کی جانب سے کسی معترض کے اعتراض کا جواب ٹپک رہا ہو(۱)۔
	۲) غیرِ مقامِ دیباچہ میں لفظِ ’’اِعْلَمْ‘‘ کا ذکر کرنا بہ ایں غرض ہوتا ہے کہ، متعلم خبر دار ہوجائے اور غافل نہ رہے؛ کیونکہ آگے آنے والی بات طُلبا کے حق میں بے حد مفید ہے(۲)؛ لہٰذا طالب کو چاہیے کہ اس کو یاد کرلے اور مصنف کی اِس تنبیہ کو رائگاں نہ سمجھیں ۔
                                              
	(۱)جیسے: شرحِ مأۃ عامل میں شارح ملا جامیؒ نے حمدوصلاۃ کے بعد فرمایا ہے: اعلمْ! أنّ العواملَ في النحوِ -علَی ما ألّفہ الشیخُ الامامُ أَفضلُ عُلمائِ الأنامِ عَبدُ القاہرِ بنُ عبدِ الرحمٰنِ الجُرجانيْ،سَقی اللّٰہُ ثراہٗ، وجعَل الجنّۃ مَثواہٗ- مأۃُ عاملٍ۔ (شرح مأۃ عامل)
	(۲)لفظ ((إعلم))، جیسے صاحبِ ہدایت النحو نے جہاں پر مبتد اکی قسمِ ثانی کو ذکر کیا ہے اُس موقع پر لفظِ ’’اعلم‘‘ کو ذکر کیا ہے، جیسے: أقائم.8ُنِ الزَّیْدَانِ۔ جیسی مثالوں کی ترکیب میں نحات بڑی دِقت میں پڑے ہیں ۔ تفصیل حسبِ ذیل ہے:
	در اصل اسمِ فاعل اور اسمِ مفعول کے عمل کرنے کے لیے دو شرطوں کا علی سبیل الجمع ہونا ضروری ہے: (۱)اسمِ فاعل اور اسمِ مفعول حال یا استقبال کے معنیٰ میں ہوں (۲) اِن سے پہلے مبتدا، ذوالحال، موصول، موصوف، ہمزۂ استفہام یاحرفِ نفی میں سے کسی ایک کا علیٰ سبیل منع الخلو ہونا ضروری ہے۔ اِن دو شرطوں پر اُن کا عمل کرنا مشروط ہے۔ 
	یہاں قابل بحث امر یہ ہے کہ، اِس اسمِ فاعل ومفعول پر کیا اعراب آئے گا؟ تفصیل معلوم کرنے سے پہلے اِس کو معلوم کرلیں کہ جن چار شکلوں میں صیغۂ صفت سے پہلے مبتدا، ذو الحال، موصول اور موصوف ہوتو اُس صیغۂ صفت پر اعراب بہ وجہِ خبر، حال، صلہ اور صفت کے آئے گا؛ لیکن مسئلہ استفہام اور نفی کا ہے، کہ وہاں پر کوئی عامل ہی نہیں ہے جس کا یہ معمول ہو، جیسے: أقائمُنِ الزَّیْدَانِ۔ تو وہاں پر صیغۂ صفت کے اعراب میں کیا توجیہ کریں گے؟
	اِس کی توجیہ کو سمجھنے سے پہلے یہ ذہن نشین فرمالیں کہ ایسی جگہوں پر کل چار صورتیں متصوَّر ہوسکتی ہیں : (۱)صیغۂ صفت اور معمول دونوں واحد ہوں ، جیسے: أقائمٌ زَیْدٌ۔ (۲) دونوں تثنیہ ہوں ، جیسے: أقائَمَانِ الزَّیْدَانِ (۳)صیغۂ صفت واحد اور معمول تثنیہ یا جمع ہوں ، جیسے: أقائمُنِ الزَّیْدَانِ (۴)اول تثنیہ یا جمع ہو، اور ثانی واحد ہو، جیسے: أقائمانِ  زَیْدٌ۔ اِن شکلوں میں سے آخری شکل تو بہ قولِ جمہور صحیح نہیں ہے۔
	رہی تین شکلیں ، اِن میں سے دوسری شکل: أقائَمَانِ الزَّیْدَانِ۔کہ اِس میں الزیدان مبتدا کی قسمِ اول ہے، اور قائمان خبر مقدم ہے۔ اِس مثال میں قائمان کو مبتدا کی قسمِ ثانی قرار نہیں دے سکتے؛ إلا أن یُجعلَ من قبیلِ أکَلوني البَراغیثُ۔ جب کہ پہلی شکل میں دونوں وجہیں مان سکتے ہیں ۔ تفصیل کتبِ نحو میں مسطور ہے۔
	 تیسری شکل: أقائمن الزیدانِ والی مثال کا یہاں بیان ہوگا، کہ یہاں قائمٌ  کو رفع کس نے دیا؟ اگر قائمٌ کو مرفوع بہ وجہِ مبتدا مانیں تو یہ صحیح نہیں ؛ کیوں کہ مبتدا مسند الیہ ہوتا ہے اور یہاں قائمٌ  مسند ہے نہ کہ مسند الیہ۔اور اگر قائمٌ  کو مرفوع بہ وجہِ الزیدانِ کی خبر مانیں تو بھی صحیح نہیں ہے؛ کیوں کہ اِس صورت میں مبتدا تثنیہ ہے اور خبر واحد ہے، گویادونوں میں مطابَقت مفقود ہے۔بہ ایں وجہ نحات نے مجبوراً اِس مثال کو مبتدا کی قسمِ ثانی قرار دیا، جس کو ((بہ وجہِ دِقتِ  غ


x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 أنْوَارُ المَطَالِعْ 1 1
3 جملہ حقوق بحقِ ناشر محفوظ ہیں 2 2
4 مطالعۂ کتب کے راہ نُما اصول 3 2
5 فہرست مضامین 5 2
6 کلمات توثیق ودعا 15 2
7 تقریظ حضرت الاستاذ مولانا قاری عبدالستار صاحب (استاذ حدیث وقراء ت دارالعلوم وڈالی) 17 2
8 مقدمہ 19 2
9 کام کی نوعیت اور کتاب میں رعایت کردہ اُمور 21 8
10 ایک نظر یہاں بھی 22 8
11 مصنف کا مختصر تعارف 22 8
12 مصنفؒ کی دیگر تصانیف 23 8
13 وقت باری تعالیٰ کا ایک قیمتی تحفہ 24 8
14 نظام الاوقات 25 8
15 احتساب 25 8
16 کیا آپ بھی کچھ بننا چاہتے ہیں ؟ 26 8
17 طالب کا کردار، اقوالِ اکابر کی روشنی میں 28 8
18 عُلما، طلبا اور حُفاظ کی فضیلت 29 8
19 حفظِ متون 39 8
20 ملکۂ تحریر پیدا کرنے کا نسخہ 39 8
21 فوائد ثمینہ 39 8
22 پیش لفظ(از مؤلف) 43 2
24 القِسْمُ الأوّلُ في مُطالَعۃِ المُبتدِئیْنَ 47 1
25 معرب،مبنی 52 24
26 منصرف،غیر منصرف 52 24
27 معرفہ، نکرہ 56 24
28 مذکر، مؤنث 57 24
29 واحد، تثنیہ، جمع 59 24
30 [اعرابِ اسمائے متمکنہ] 61 24
31 عَناوین کے اعراب کی تعیین 63 24
32 ابتدائِ کلام میں واقع ہونے والے اسماء 65 24
33 درمیانی کلام میں واقع ہونے والا اسم اور اس کامابعد 66 24
34 تابع، متبوع کی تعیین 70 24
35 متعلقاتِ جملہ فعلیہ 74 24
36 تعیین اجزائِ جملہ فعلیہ 77 24
37 اجزاء جملہ فعلیہ واسمیہ کی شناخت 80 24
38 دو فعل ایک جگہ جمع ہوں 81 24
39 حروفِ معانی 82 24
40 قوانینِ مُہِمہْ 88 24
41 فوائد مختلفہ مہِمَّہ 90 24
42 کلماتِ ذو وجہین 90 24
43 مطالعۂ کتب کے بنیادی اصول 95 24
44 لغت دیکھنے کا طریقہ 96 24
45 القسمُ الثاني في مُطالعۃِ المتوسطِین 99 1
46 بسملہ و حمدلہ 101 45
47 تصلیہ: (صلاۃ علی النبي) 101 45
48 بوقت ابتدائے کتاب اسالیبِِ مصنفین 102 45
49 متن اور طرزِِ تحریر 106 45
50 شرح کی احتیاج اور اس کے دواعی 107 45
51 بہ وقتِ شرح رعایت کردہ اُمور 112 45
52 وہ امور جن کی بہ وقتِ شرح رعایت کی جاتی ہے 112 45
53 متن وشرح میں بہ غرضِ مخصوص مستعمل الفاظ 125 1
54 ماتن کی متانت 127 53
55 ماتن کا لفظِ ’’إعْلمْ‘‘اور اغراضِ ثلاثہ 130 53
56 شارح کی سخاوت 135 53
57 اسالیبِ شرح 135 53
58 فرائضِ شارحین 136 53
59 الفاظِ دفعِ وہم و اعتراض 138 53
60 مطالعۂ کتبِ عربیہ میں مُعِین ۳۸؍ ضروری قواعد وضوابط 143 53
61 وہ ضمائر جن کے مراجع بظاہر مذکور نہیں ہوتے 145 53
62 وجہِ تسمیہ، وجہِ عدول اور کلمۂ اِنَّمَا 147 53
63 شراح کا دلچسپ انداز استدلال اورکلماتِ جواب ودلیل 149 53
64 شرَّاح کا لفظِ ’’اِعلم‘‘ اور مقاصدِ اربعہ 158 53
65 طریقۂ استدلال اور مخالِفین پر رد 159 53
66 دورانِ شرح غیر کا قول نقل کرنے کی اَغراض 159 53
67 اجوبۂ مختلفہ اور اُن کی حیثیات 170 53
68 لفظِ ’’اَیْ‘‘ کا فلسفہ 174 53
69 فائدۂ نافعہ 182 53
70 شارحین کے مخصوص کلماتِ تعریض وکنایہ 184 53
71 عطف کا معیار، واؤ کی تعیین 188 53
72 خاتمۂ کتاب 193 1
73 مختصراً علم کی فضیلت 195 72
74 علوم وفنون کی اہمیت اور اُن میں آپسی ربط 196 72
75 علم المطالعہ کی اہمیت 197 72
77 ایک سچا طالبِ علم اور اُس کے صفات 198 72
78 آداب طالبِ علم 199 72
79 ایک کامیاب طالبِ علم 201 72
80 طریقۂ مطالعہ 203 72
81 ترقیم کے چند قواعد ورموز 207 72
82 رموز اوقاف 207 72
83 یومیہ محاسبہ 209 72
84 رموزِ عددی وکلماتِ مخففہ 210 72
85 کتاب کی فریاد اپنے حامِلین سے 211 72
86 اہم مآخذ ومراجع 212 72
Flag Counter