قانون۲-: ہر وہ قضیہ شرطیہ جس کی جزاء جملہ اسمیہ ہو، جس کی خبر مصطلح فنی (کسی فن کی اصطلاح) ہو تو وہ قضیہ شرطیہ مَقسَم کے اقسام کو بیان کرتا ہے اُن اقسام کی تعریفات کے ساتھ، یعنی اُس قضیہ شرطیہ میں سے مقدم اُس مُصطلح فنی کا معرِّف ہوتا ہے(۱)۔
ـصورتِ حاصلہ عند العقل جو نسبتِ تامہ ثبوتیہ یا سلبیہ کو ظاہر کرے وہ تصدیق ہے؛ ورنہ تصور ہے۔
جیسے: الفاعلُ مرفوعٌ، والمفعولُ مَنصوبٌ: ہر فاعل مرفوع ہوتا ہے اور ہر مفعول منصوب ہوتا ہے۔ أيْ کلُّ فاعلٍ مرفوعٌ وکلُّ مفعولٍ مَنصوبٌ۔
(۱)مثال: والمَوضوعُ ((مقسم ہے، جو موضوع اور مبتدا ہے)) إنْ((قضیہ شرطیہ ہے)) قُصدَ بجزئِ ہ الدلالۃُ علیٰ جزئِ مَعناہٗ ((شرط، مقدم)) فَمُرکبٌ((جزا، تالی))؛ [أيْ فھوَ ’’مُرَکَّبٌ‘‘] ((مصطلح فنی))، إمَّا تامٌّ:أيْ یصِحُّ السُّکوتُ عَلیہِ ((تعریفِ مشہور سے عدول)) خبرٌ أوْ اِنشائٌ؛ واِمَّا ناقصٌ: تَقْییديٌّ أو غیرُہ؛ وَإلاّ فَمفردٌ۔ [أيْ إنْ لمْ یُرَدْ دلالۃُ جزئٍ منہٗ علی جزئِ مَعناہٗ ((مقدم)) فَہوَ المُفردُ] ((تالی))،قضیہ شرطیہ متصلہ مہملہ۔
مختصر مفہوم: اگر لفظ کے جزء کی(۱) دلالت(۲) معنی کے جزء پر (۳) مقصود ہو (۴)تو وہ مرکب ہے، وإلا فمفرد: ورنہ تو مفرد ہے۔ گویا مرکب کے وجود کے لیے اِن چار چیزوں کا علیٰ سبیل الجمع وعلیٰ سبیل منع الخلو پایا جانا ضروری ہے، مفرد کی مثالیں بالترتیب یہ ہیں : (۱)ہمزۂ استفہام: کہ لفظ کا جزو ہی نہیں (۲)لفظ اللہ: کہ لفظ کا جزو تو ہے؛ لیکن اُس کا معنیٰ ذاتِ بسیط ہے جس کا کوئی جزو ہی نہیں (۳)زید: کہ لفظ کا جزء مثلاً زاء، ذاتِ زید کے جزو مثلاً: ہاتھ، پاؤں پر دلالت نہیں کرتا (۴)حیوانِ ناطق: سے کسی کا نام رکھا جائے، کہ اِس میں لفظ کے اجزاء معنیٰ کے اجزاء پر دلالت کرتے ہیں ؛ لیکن نام رکھنے کی صورت میں یہ دلالت مقصود نہیں ۔
الحاصل کلامِ مرکب پر متکلم کا چپ رہنا صحیح ہوگا یانہ ہوگا؟ اول: مرکبِ تام ہے، جیسے: زید قائم، دوم: مرکبِ ناقص ہے، جیسے: غلامُ زیدٍ۔ مرکبِ تام کے قائل کو سچا یا جھوٹا کہہ سکتے ہیں یا نہیں ؟ اول خبر ہے، جیسے: زید قائم، قام زید؛ اور ثانی انشاء ہے، جیسے: انصر أخاک۔
مرکبِ ناقص میں جزوِ ثانی، جزوِ اول کے لیے قید ہوگا یانہ ہوگا؟ اول تقییدی ہے، جیسے: غلامُ زیدٍ، رجلٌ فاضل؛ ثانی: غیر تقییدی ہے، جیسے: الدارُ، في الدارِ وغیرہ۔
منطقی ترکیب: لفظِ (المَوضوعُ)مناطقہ کے نزدیک ’’موضوع‘‘ اور نحات کے یہاں ’’مبتدا‘‘ ہے۔ (إنْ قُصدَ بجزئِ ہ الدلالۃُ علَی جزئِ مَعناہٗ) مقدم شرط ہے، (فَ) جزائیہ ، (ھُوَ) موضوع، مبتدا اور (مُرَکَّب) محمول خبر ہے، اور (فھوَ ’’مُرَکَّبٌ) پورا جملہ اسمیہ ہوکر (إنْ قُصد الخ) شرط مقدم کی جزاء تالی ہے۔ (إنْ قُصد) شرط اپنی جزا سے مل کر، یا یوں کہیے کہ: مقدم اپنی تالی سے مل کر جملہ شرطیہ ہو کر ((المَوضوعُ)) موضوع کا محمول، یا ((المَوضوعُ)) مبتدا کی خبراور پورا جملہ اسمیہ یاحملیہ ہوگا۔
اِس عبارت میں إنْ قُصد سے فھوَ مُرَکَّبٌ تک جملہ شرطیہ ہے، جس کی جزا (فھوَ مُرَکَّبٌ) ہے، اِس غ