امر ثانی:۱-کبھی مصنف قیاس(۱) کے بعض مقدمات کو حذف کردیتے ہیں (۲)۔
ـ پھر نقض ہوا کہ کتاب تو آنکھیں کھولنے والی نہیں ہے، آنکھیں کھولنے والے تو مصنفؒ ہے، اِس میں ’’آنکھیں کھولنا‘‘ فعل کی نسبت کتاب کی طرف کرنا کیسے صحیح ہے؟ شارح نے اِس کا جواب ویَحتمِلُ التَجوُّز الخ سے دیاکہ: تبصرۃ کو مبصر کے معنیٰ میں لیوے تو یہ مجاز لغوی ہوگا، اور اس میں جو نسبت ہے وہ حقیقت عقلی ہے، اور اگر براہ راست تبصرۃ کا ہ ضمیر پر حمل کرے مبصر کے معنیٰ میں لیے بغیر، تو یہ مجاز عقلی ہے، گویا جعلتہ پر اعتراض کے دو جواب ہیں ۔
قولہ: لَدَی الاِفھَامِ میں افہام مصدر ہے اورافھم کی صرفِ صغیر کرتے ہوئے مصدر کا تذکرہ دو جگہوں پر ہوتا ہے: ایک فعلِ معروف کے بعد والا مصدر بہ معنیٰ سمجھانا، جسے ’’مصدرِ مبنی للفاعل‘‘ کہتے ہیں ۔ اور دوسرا مصدر’’مبنی للمفعول‘‘ہے جس کا ترجَمہ’ ’سمجھایا جانا‘‘ ہوتا ہے۔ اور مطلب یہ ہوگا کہ، یہ کتاب آنکھیں کھولنے والی ہے اُس کے لیے جو آنکھیں کھولنے کا ارادہ کرے طلبہ میں سے، لدی إفہام المعلم إیاہ ،یا یہ کتاب آنکھیں کھولنے والی ہے جو آنکھیں کھولنے کا ارادہ کرے اساتذہ میں سے،لدي إفہامہ التلمیذ۔ اِن سارے محذوفات و مقدرات کا بیان قواعد نحو، صَرف اور بلاغت کے مطابق ہوا ہے۔
فائدہ: اب اگر یہ حذف کرنا بالدلیل اور بالقرینہ ہے تو اس کو ’’اقتصار‘‘کہتے ہیں ، اور حذف بلا دلیل وبلا قرینہ ہے تو اِسے ’’اختصار‘‘ کہتے ہیں ۔مرتب
(۱) قیاسِ اقترانی، استثنائی
قولہ: القیاس: ہو قولٌ مؤلف من قضایا یلزم لذاتہا قولا آخر، وہو ’’اقتراني‘‘ إن لم یذکر النتیجۃُ فیہ بمادتہ، و’’استثنائيٌّ‘‘ إن ذُکرَ۔
وللاستثنائيِّ شروطٌ: فلو لم یکن الشروط لم یُنتجْ، فہو إِنْ کان مرکباً من متصلۃٍ (أولیٰ) و حمْلیۃٍ (أُخریَ)، فشرْطُ إِنتاجہ: إِیجابُ الشرطیۃِ المتصلۃِ معَ لزومہِ وکلیۃِ أحدٍ من الشرطیۃِ أوالقضیۃِ الاستثنائیّۃِ، وإِما إنْ کانَ مرکبا من منفصلۃٍ أولیٰ وحملیۃٍ أخرَی، فشرْطُ إنتاجہِ: إیجابُ المُنفصِلۃ مع العِنادِ، وکلیۃ واحد من الشرطیۃِ، أوالقضیۃ المُستثناۃِ۔
وللاقتراني أیضاً شروط: فإنْ کان الشکل الأولُ فشرطُ إنتاجہِ: ایجابُ الصُّغریٰ وکلیۃُ الکبریٰ؛ وإنْ کان الثاني فشرطُ إنتاجہ: اختلافہما في الکیف وکلیۃ الکبرَی؛ وإن کان الثالثُ فشرطُہ: إیجابُ الصغرَی مع کلیۃِ أحدہما؛ وإن کانَ الرابعُ فشرطُ إنتاجہ: إما إیجابُہما مع کلیۃ الصغریٰ أو اختلافُہما مع کلیۃِ إحداہما۔ وباقي التحقیق فی کتب المنطق۔ مصنف
والحد: یقال لأطراف القضیۃ، ہٰذا إذا کان في التصدیقات، وأما في التصوّرات، فالحد: قسم من قسميِ التعریف۔مصنف
حد کا لفظ اگر تصدیقات میں ذکر کیا جائے تو اِس سے اطرافِ قضیہ (حد اوسط) مراد ہوتا ہے، اور بحثِ تصورات میں حد کا لفظ مقابلِ رسم پر بولا جاتا ہے، اور اُس وقت حد ورسم سے تعریف کی دو قسمیں مراد ہوتی ہیں ۔
(۲)کبھی شارح کسی چیز کی دلیل بیان کرنے میں صرف صغریٰ کو بیان کرتے ہیں ، پھر اُس پر شراح اور محشیینغ