[۱]یا تو اِس اعتماد پر کہ یہ مقدمات واضح ہیں [۲]یا اِس وجہ سے کہ اِن مقدمات کا اِس فن سے کوئی سرو کار نہیں ۔
۲-کبھی بعض قیاسوں کی ترتیب کو ترک کر دیتے ہیں ، اور بعض قضایا کی عِلل مصنف بیان نہیں کرتے، تو شارح کو اُن مُہمل مُقدمات کے ذکر کرنے کی احتیاج ہوتی ہے، اور جس قدر مقدمات کو اس فن میں بیان کرنا مناسب ہوتا ہے وہ بیان کرتے ہیں ، اور جس کو بیان کرنا مناسبِ مقام نہیں تو دوسری جگہ کا حوالہ دیتے ہیں ، نیز جن کی علل مصنف نے ذکر نہیں کی وہ بیان کرتے ہیں (۱)۔
امر ثالث: کبھی مصنف کے کلام میں اِس قِسم کے الفاظ ہوتے ہیں کہ:
[۱] وہ معانیٔ لطیفہ یا تاویلیہ کے حامل ہیں ، جن کو ایسے الفاظ سے تعبیر کرنے کی ضرورت ہوتی ہے جن سے وہ معانی واضح ہوجائیں ۔
[۲]مصنف نے کسی لفظ کو مجازی معنیٰ میں لیا ہے۔
[۳]مصنف نے دلالتِ التزامی کو استعمال کیا ہے، تو شارح مصنف کی غرض اور اُس معنیٰ کی ترجیح کو بیان کرتے ہیں ۔
فائدہ: کہیں پر بعض تصانیف میں مصنفین سے سہو(۲) اور غلطی بھی ہوجاتی ہے، یا کہیں بعض اہم اور ضروری الذکر چیزوں کو ترک کر دیتے ہیں ، اور کبھی ایک ہی چیز کو بغیر کسی
ـ حضرات کلام کرتے ہوئے کبریٰ کو واضح کرتے ہیں ، جیسے: ہدایہ ’’کتاب الصلح‘‘ میں صاحبِ ہدایہ نے صلح کی تینوں قسمیں (صلح مع اقرار، صلح مع سکوت اور صلح مع انکار) کے جواز پر کتاب اللہ سے دلیل دی ہے، قولہ تعالیٰ: {وَالصُّلْحُ خَیْرٌ}، اِس پر محشی فرماتے ہیں : کلُّ صلحٍ خیرٌ (صغریٰ) ،اِس میں لفظ ’’کل‘‘ لا کر بتلایا کہ الصلح میں الف لام استغراقی ہے، وکل خیرٍ مشروع (کبریٰ) بیان کر نے کے بعد نتیجہ ناظرین کے حوالے کر دیا فکل صلح مشروع، کہ ہمارے نزدیک صلح کی تینوں قسمیں صحیح اورمشروع ہیں ،بر خلاف امام شافعیؒ کے۔ (ہدایہ ۳ ؍۲۴۵)مرتب
(۱) جیسے: شرح عقائد میں ہے:العالمُ بجمیعِ أجزائہِ مُحدَث((مدعیٰ))، إِذ ہوَ (أيالعالمُ) أَعیانٌ وأَعراضٌ((صغریٰ))، لأنّہ إنْ قامَ بذاتہِ فَعینٌ وَالاَّ فَعرضٌ((علت))، (وَکلٌّ منہُما حادثٌ)((کبریٰ))، [فالعالمُ حادثٌ ((نتیجہ))]۔ وَلم یَتعرَّض المصنف [بالکبریٰ]؛ لأن الکلامَ فیہِ طَویلٌ، لایلیقُ بہٰذا المُختصرِ)۔ (شرح عقائد:۲۳) غ