لوگوں کو بہ آسانی سمجھ میں آجائے، جس کے پڑھنے اور سمجھنے سے لوگ بہرہ ور ہو سکیں ، ایسا نہ ہو کہ میری کتاب کو سمجھنے کے لیے کسی شرح کی احتیاج پڑے؛ تاہم تین امور کی وجہ سے شرح(۱) کی ضرورت محسوس کی جاتی ہیں :
امر اول: حضرت مصنفِ کتاب اِس فن میں مہارتِ تامہ کے حامل ہوتے ہیں ؛ لہٰذا اپنے ذہن کی حِدت اور اپنی حسنِ عبارت کی وجہ سے ایسے گہرے اور دَقیق معانی کا حامل نہایت مختصر کلا م کرتے ہیں جو مکمل مطلب پر رہنما ہوتا ہے؛ مگر مصنف کے ما سوا کو بہت کم یہ رُتبہ حاصل ہوتا ہے، جس کے نتیجے میں بعضے مقامات ایسے ہوتے ہیں کہ جن کا مطلب سمجھنے میں دِقت اٹھانی پڑتی ہے؛ اِس لیے عبارت(۲) کو طول دینے کی ضرورت پڑتی ہے؛ تاکہ خفی اور پوشیدہ معانی ظاہر و واضح ہوجائیں (۳)، اسی وجہ سے بعضے مصنفین نے اپنی متون کی شرحیں خود لکھی ہیں ، جیسے: علامہ شہاب الدین احمد بن علی حافظ ابن حجر عسقلانی ؒنے [نزھۃ النظر] شرحِ نخبۃ الفکر لکھی ہے۔
(۱)حاشیہ اور شرح کا فرق ’’دستور الطلباء‘‘ میں ملاحظہ فرمائیں ۔ مرتب
(۲)العبارۃُ: کلِمتانِ أو أکثرُ تَتَرابَطُ فیما بینَہما حسبَ قواعدِ اللغۃِ، تَتَضمَّن معنیً مُعیِّناً۔ أوْ ہِي الکلامُ الذيْ یُبَیِّنُ مَا في النفسِ من معانٍ۔ (موسوعہ:۴۴۲)
عبارت: قواعدِ لغتِ عربیہ کے مطابق مربوط دو یا زیادہ کلمے ہیں جو کسی معین معنی کو متضمن ہوں ، یا اُس کلام کو کہتے ہیں جو متکلم کے دل کا مضمون واضح کرے۔ مرتب
(۳)عبارت کو طول دینے کے لیے حضراتِ شراح محذوفات ومقدرات کو ظاہر کرتے ہیں ؛ لیکن پوشیدہ نہ رہے کہ یہ محذوفات کو ظاہر کرنا بھی قواعدِ نحو، صَرف، منطق بلاغت وغیرہ کے مطابق ہوتا ہے، مثلاً ’’شرحِ تہذیب‘‘ میں ہے:
جَعَلْتُہٗ تَبْصِرَۃً (أي مُبَصِّراً، ویَحْتَمِلُ التَّجَوُّزَ في الاسنادِ) لِمنْ حاوَلَ التَبَصُّرَ لدَی الإِفھام (أي تفھیمُ الغیرِ إیَّاہ، أو تفھیمُہٗ للغَیرِ، والأَوَّلُ للمتعلِّم، والثانيْ للمُعلِّم)۔
اِس عبارت میں ’’ہ‘‘ جعلتُ کا مفعولِ اول ہے، اور تبصرۃً مفعولِ ثانی ہے، اور معلوم ہونا چاہیے کہ جَعَلَ افعالِ قلوب میں سے ہے، اور افعالِ قلوب کے دو مفعول آپس میں مبتدا خبر ہوتے ہیں ، جس میں خبر کا حمل مبتدا پر ہوتا ہے، اور تقدیری عبارت ایَّاہٗ تَبْصِرَۃً سے ھو تبصرۃٌ، (وہ کتاب آنکھیں کھولنے والی ہے) ہوگی، جس میں مصدر کا حمل ذات پر لازم آیا ہے جو صحیح نہیں ہے۔
اِس کا جوابِ انکاری شارح نے دیا کہ: یہ آپ کا نقض ہی صحیح نہیں ہے؛ کیوں کہ تبصرۃً، مُبصِّر اسمِ فاعل کے معنیٰ میں ہے اور اسمِ فاعل ذات مع الوصف پر دلالت کرتا ہے، اور معنیٰ یہ ہوگا: ’’یہ کتاب آنکھیں کھولنے والی ہے‘‘۔ غ