Deobandi Books

انوار المطالع فی ھدایات المطالع

108 - 214
لوگوں کو بہ آسانی سمجھ میں آجائے، جس کے پڑھنے اور سمجھنے سے لوگ بہرہ ور ہو سکیں ، ایسا نہ ہو کہ میری کتاب کو سمجھنے کے لیے کسی شرح کی احتیاج پڑے؛ تاہم تین امور کی وجہ سے شرح(۱) کی ضرورت محسوس کی جاتی ہیں : 
	امر اول: حضرت مصنفِ کتاب اِس فن میں مہارتِ تامہ کے حامل ہوتے ہیں ؛ لہٰذا اپنے ذہن کی حِدت اور اپنی حسنِ عبارت کی وجہ سے ایسے گہرے اور دَقیق معانی کا حامل نہایت مختصر کلا م کرتے ہیں جو مکمل مطلب پر رہنما ہوتا ہے؛ مگر مصنف کے ما سوا کو بہت کم یہ رُتبہ حاصل ہوتا ہے، جس کے نتیجے میں بعضے مقامات ایسے ہوتے ہیں کہ جن کا مطلب سمجھنے میں دِقت اٹھانی پڑتی ہے؛ اِس لیے عبارت(۲) کو طول دینے کی ضرورت پڑتی ہے؛ تاکہ خفی اور پوشیدہ معانی ظاہر و واضح ہوجائیں (۳)، اسی وجہ سے بعضے مصنفین نے  اپنی متون کی شرحیں خود لکھی ہیں ، جیسے: علامہ شہاب الدین احمد بن علی حافظ ابن حجر عسقلانی ؒنے [نزھۃ النظر] شرحِ  نخبۃ الفکر لکھی ہے۔ 
                                              
	(۱)حاشیہ اور شرح کا فرق ’’دستور الطلباء‘‘ میں ملاحظہ فرمائیں ۔ مرتب
	(۲)العبارۃُ: کلِمتانِ أو أکثرُ تَتَرابَطُ فیما بینَہما حسبَ قواعدِ اللغۃِ، تَتَضمَّن معنیً مُعیِّناً۔ أوْ ہِي الکلامُ الذيْ یُبَیِّنُ مَا في النفسِ من معانٍ۔ (موسوعہ:۴۴۲) 
	عبارت: قواعدِ لغتِ عربیہ کے مطابق مربوط دو یا زیادہ کلمے ہیں جو کسی معین معنی کو متضمن ہوں ، یا اُس کلام کو کہتے ہیں جو متکلم کے دل کا مضمون واضح کرے۔ مرتب
	(۳)عبارت کو طول دینے کے لیے حضراتِ شراح محذوفات ومقدرات کو ظاہر کرتے ہیں ؛ لیکن پوشیدہ نہ رہے کہ یہ محذوفات کو ظاہر کرنا بھی قواعدِ نحو، صَرف، منطق بلاغت وغیرہ کے مطابق ہوتا ہے، مثلاً ’’شرحِ تہذیب‘‘ میں ہے:
	جَعَلْتُہٗ تَبْصِرَۃً (أي مُبَصِّراً، ویَحْتَمِلُ التَّجَوُّزَ في الاسنادِ) لِمنْ حاوَلَ التَبَصُّرَ لدَی الإِفھام (أي تفھیمُ الغیرِ إیَّاہ، أو تفھیمُہٗ للغَیرِ، والأَوَّلُ للمتعلِّم، والثانيْ للمُعلِّم)۔
	اِس عبارت میں ’’ہ‘‘ جعلتُ کا مفعولِ اول ہے، اور تبصرۃً   مفعولِ ثانی ہے، اور معلوم ہونا چاہیے کہ جَعَلَ  افعالِ قلوب میں سے ہے، اور افعالِ قلوب کے دو مفعول آپس میں مبتدا خبر ہوتے ہیں ، جس میں خبر کا حمل مبتدا پر ہوتا ہے، اور تقدیری عبارت ایَّاہٗ تَبْصِرَۃً سے ھو تبصرۃٌ، (وہ کتاب آنکھیں کھولنے والی ہے) ہوگی، جس میں مصدر کا حمل ذات پر لازم آیا ہے جو صحیح نہیں ہے۔
	اِس کا جوابِ انکاری شارح نے دیا کہ: یہ آپ کا نقض ہی صحیح نہیں ہے؛ کیوں کہ تبصرۃً، مُبصِّر  اسمِ فاعل کے معنیٰ میں ہے اور اسمِ فاعل ذات مع الوصف پر دلالت کرتا ہے، اور معنیٰ یہ ہوگا: ’’یہ کتاب آنکھیں کھولنے والی ہے‘‘۔   غ


x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 أنْوَارُ المَطَالِعْ 1 1
3 جملہ حقوق بحقِ ناشر محفوظ ہیں 2 2
4 مطالعۂ کتب کے راہ نُما اصول 3 2
5 فہرست مضامین 5 2
6 کلمات توثیق ودعا 15 2
7 تقریظ حضرت الاستاذ مولانا قاری عبدالستار صاحب (استاذ حدیث وقراء ت دارالعلوم وڈالی) 17 2
8 مقدمہ 19 2
9 کام کی نوعیت اور کتاب میں رعایت کردہ اُمور 21 8
10 ایک نظر یہاں بھی 22 8
11 مصنف کا مختصر تعارف 22 8
12 مصنفؒ کی دیگر تصانیف 23 8
13 وقت باری تعالیٰ کا ایک قیمتی تحفہ 24 8
14 نظام الاوقات 25 8
15 احتساب 25 8
16 کیا آپ بھی کچھ بننا چاہتے ہیں ؟ 26 8
17 طالب کا کردار، اقوالِ اکابر کی روشنی میں 28 8
18 عُلما، طلبا اور حُفاظ کی فضیلت 29 8
19 حفظِ متون 39 8
20 ملکۂ تحریر پیدا کرنے کا نسخہ 39 8
21 فوائد ثمینہ 39 8
22 پیش لفظ(از مؤلف) 43 2
24 القِسْمُ الأوّلُ في مُطالَعۃِ المُبتدِئیْنَ 47 1
25 معرب،مبنی 52 24
26 منصرف،غیر منصرف 52 24
27 معرفہ، نکرہ 56 24
28 مذکر، مؤنث 57 24
29 واحد، تثنیہ، جمع 59 24
30 [اعرابِ اسمائے متمکنہ] 61 24
31 عَناوین کے اعراب کی تعیین 63 24
32 ابتدائِ کلام میں واقع ہونے والے اسماء 65 24
33 درمیانی کلام میں واقع ہونے والا اسم اور اس کامابعد 66 24
34 تابع، متبوع کی تعیین 70 24
35 متعلقاتِ جملہ فعلیہ 74 24
36 تعیین اجزائِ جملہ فعلیہ 77 24
37 اجزاء جملہ فعلیہ واسمیہ کی شناخت 80 24
38 دو فعل ایک جگہ جمع ہوں 81 24
39 حروفِ معانی 82 24
40 قوانینِ مُہِمہْ 88 24
41 فوائد مختلفہ مہِمَّہ 90 24
42 کلماتِ ذو وجہین 90 24
43 مطالعۂ کتب کے بنیادی اصول 95 24
44 لغت دیکھنے کا طریقہ 96 24
45 القسمُ الثاني في مُطالعۃِ المتوسطِین 99 1
46 بسملہ و حمدلہ 101 45
47 تصلیہ: (صلاۃ علی النبي) 101 45
48 بوقت ابتدائے کتاب اسالیبِِ مصنفین 102 45
49 متن اور طرزِِ تحریر 106 45
50 شرح کی احتیاج اور اس کے دواعی 107 45
51 بہ وقتِ شرح رعایت کردہ اُمور 112 45
52 وہ امور جن کی بہ وقتِ شرح رعایت کی جاتی ہے 112 45
53 متن وشرح میں بہ غرضِ مخصوص مستعمل الفاظ 125 1
54 ماتن کی متانت 127 53
55 ماتن کا لفظِ ’’إعْلمْ‘‘اور اغراضِ ثلاثہ 130 53
56 شارح کی سخاوت 135 53
57 اسالیبِ شرح 135 53
58 فرائضِ شارحین 136 53
59 الفاظِ دفعِ وہم و اعتراض 138 53
60 مطالعۂ کتبِ عربیہ میں مُعِین ۳۸؍ ضروری قواعد وضوابط 143 53
61 وہ ضمائر جن کے مراجع بظاہر مذکور نہیں ہوتے 145 53
62 وجہِ تسمیہ، وجہِ عدول اور کلمۂ اِنَّمَا 147 53
63 شراح کا دلچسپ انداز استدلال اورکلماتِ جواب ودلیل 149 53
64 شرَّاح کا لفظِ ’’اِعلم‘‘ اور مقاصدِ اربعہ 158 53
65 طریقۂ استدلال اور مخالِفین پر رد 159 53
66 دورانِ شرح غیر کا قول نقل کرنے کی اَغراض 159 53
67 اجوبۂ مختلفہ اور اُن کی حیثیات 170 53
68 لفظِ ’’اَیْ‘‘ کا فلسفہ 174 53
69 فائدۂ نافعہ 182 53
70 شارحین کے مخصوص کلماتِ تعریض وکنایہ 184 53
71 عطف کا معیار، واؤ کی تعیین 188 53
72 خاتمۂ کتاب 193 1
73 مختصراً علم کی فضیلت 195 72
74 علوم وفنون کی اہمیت اور اُن میں آپسی ربط 196 72
75 علم المطالعہ کی اہمیت 197 72
77 ایک سچا طالبِ علم اور اُس کے صفات 198 72
78 آداب طالبِ علم 199 72
79 ایک کامیاب طالبِ علم 201 72
80 طریقۂ مطالعہ 203 72
81 ترقیم کے چند قواعد ورموز 207 72
82 رموز اوقاف 207 72
83 یومیہ محاسبہ 209 72
84 رموزِ عددی وکلماتِ مخففہ 210 72
85 کتاب کی فریاد اپنے حامِلین سے 211 72
86 اہم مآخذ ومراجع 212 72
Flag Counter