……………………………………………
ـاللّٰہِ‘‘، وَفيْ لَفظٍ: ’’ببِسمِ اللّٰہِ‘‘، وَفيْ لَفظٍ: ’’بِذِکرِ اللّٰہِ‘‘، وَقدْ ضعَّفہٗ بعضٌ، وَصحَّحہٗ بَعضٌ…۔
وبالجملۃِ: الحَدیثُ واحدٌ ولفظہٗ مُتعددٌ، وَمفادُہ بعدَ ثُبوتِہِ ’’البِدا.8ئۃُ بذکرِ اللّٰہِ‘‘، سَوائٌ کانَ فيْ صُورۃِ البَسملَۃِ أو الحَمدلۃِ أو غَیرہمَا۔ وَتَوھَّم کَثیرٌ مِن المُصنفینَ تَعدُّدَ الحَدیثِ لاختِلافِ لَفظِہِ، فَاضطربوْا فيْ جَمعِ العَملِ بہمَا، فاختَرعوْا للابْتدائِ أقسَاماً عنْ الحَقیقيِّ والعُرفيِّ والاضافيِّ، فحمَلوْا بعضَ الألفاظِ عَلَی الحَقیقيِّ والبعضَ عَلی الاضافيِّ، کمَا ہوَ مَعروفٌ۔ کلُّ ذلکَ تَکلُّفٌ وَتَنطُّعٌ وَغفلۃٌ عن الفَنِّ وقواعدِہ؛ وَمدارُ تَحقیقِہمْ وعَنائہمْ عَلی ظنِّہمْ تَعدُّدُ الاحادیثِ؛ ولمْ یدروْا أنّ الحَدیثَ واحدٌ، وإنَّما الاختلافُ فيْ اللفظِ۔ افادہ شیخُنا امامُ العصرِ۔ (معارف السنن:۱؍۲)
علامہ انور شاہ کشمیریؒ فرماتے ہیں کہ: یہ جو حضراتِ مصنفین ابتداء بالبسملہ والحمدلہ کی روایات میں تطبیق دیتے ہیں کہ، ایک جگہ ابتدائے حقیقی اور ایک جگہ ابتدائے اضافی مراد ہے، یہ صحیح نہیں ہے؛ اِس لیے کہ حدیثِ بسملہ وحمدلہ الگ الگ دو حدیثیں نہیں ہیں کہ اُن دونوں میں تعارض مان کر یہ جواب دیا جائے؛ بلکہ ایک ہی روایت ہے جس کے اندر اضطراب ہے، بعض رُوات حمدلہ کو اور بعض رُوات بسملہ کو ذکر کرتے ہیں ۔
فالذيْ یَظہرُ من مَجموعِ الأدلّۃِ -واللّٰہُ أعلمْ- أنَّ المَطلوبَ الابتدائُ بذکرِ اللّٰہِ، وَمن أولَی مَا یَحصلُ بہِ ہٰذا المَطلوبُ، البَسملۃُ والحَمدَلۃُ مُجتمعتَینِ أوْ مُنفردۃً إحداہمَا مِن الأُخرَی بِحسبِ مَا یَقتضیْہِ المُقامُ والحالُ، والمُرادُ بالابتدائِ فيْ الحَدیثِ عِنديْ الابتدائُ العُرفيُّ المُمتَدُّ الزَّمانيُّ لاالحَقیقيُّ الآنيُّ۔ واللّٰہُ أعلمْ۔ (فتح الملہم۱؍۳۰۳)
فوائدِ شتی: (۱)ابتداء بالحمد مخصوص ہے خطاب (بیان وتقریر) کے ساتھ، کتاب، خطوط اُس میں داخل نہیں ہیں ۔ دلیل اِس پر حضور ا کا طرزِ عمل ہے وہ یہ کہ آپ ا اپنا خطبہ ہمیشہ حمد سے شروع فرماتے، الحمد للّٰہ نحمدہ الخ۔ اور خطبہ کے شروع میں بسم اللہ نہ پڑھتے تھے، اِس کے بالمقابل خطوط کی ابتداء صرف بسملہ سے فرماتے، مثلاً: بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم، من محمدٍ رسول اللّٰہ ا إلی ھرقل الخ۔ اور صلح نامۂ حدیبیہ میں ہے: بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم، ہٰذا ما قاضیٰ علیہ رسولُ اللّٰہِ۔ وغیرہ وغیرہ۔
(۲)حمد سے مقصود نفسِ ذکر ہے نہ کہ مخصوص حمد، جیسا کہ مسندِ احمد کی روایت میں تصریح ہے: کلُّ أمرٍ ذيْ بالٍ لمْ یُبدأ بذکرِ اللّٰہِ فَہوَ أقطعُ واَبترُ، اور نفسِ ذکر بسملہ سے حاصل ہوگیا۔
حمد کہتے ہیں صفاتِ کمالیہ کے اظہار کو، اور یہ معنیٰ یقیناً ’’الرحمٰن الرحیم‘‘ میں حاصل ہوگئے۔ یہ جواب حضرت شیخ کے والد جناب مولانا یحییٰ صاحبؒکو بہت پسند تھا۔ (الدر المنضود:۱؍۷۶)
ملاحظہ: سورۂ اقرأ کی تفسیر میں حضرت تھانویؒ رقم طراز ہے کہ: اے پیغمبر ا!آپ (پر جو) قرآن نازل ہوا کرے گا، (جس میں اُس وقت کی نازل ہونے والی آیتیں بھی داخل ہیں ) اپنے رب کا نام لے کر پڑھا کیجیے (یعنی جب پڑھیے تو بسم اللہ کہہ کر پڑھا کیجیے، جیسا کہ اِس آیت میں {وَاذا قرأت القرآن فاستعذ باللّٰہ} الخ قرآن غ