Deobandi Books

انوار المطالع فی ھدایات المطالع

104 - 214
……………………………………………
                                              
ـاللّٰہِ‘‘، وَفيْ لَفظٍ: ’’ببِسمِ اللّٰہِ‘‘، وَفيْ لَفظٍ: ’’بِذِکرِ اللّٰہِ‘‘، وَقدْ ضعَّفہٗ بعضٌ، وَصحَّحہٗ بَعضٌ…۔
	وبالجملۃِ: الحَدیثُ واحدٌ ولفظہٗ مُتعددٌ، وَمفادُہ بعدَ ثُبوتِہِ ’’البِدا.8ئۃُ بذکرِ اللّٰہِ‘‘، سَوائٌ کانَ فيْ صُورۃِ البَسملَۃِ أو الحَمدلۃِ أو غَیرہمَا۔ وَتَوھَّم کَثیرٌ مِن المُصنفینَ تَعدُّدَ الحَدیثِ لاختِلافِ لَفظِہِ، فَاضطربوْا فيْ جَمعِ العَملِ بہمَا، فاختَرعوْا للابْتدائِ أقسَاماً عنْ الحَقیقيِّ والعُرفيِّ والاضافيِّ، فحمَلوْا بعضَ الألفاظِ عَلَی الحَقیقيِّ والبعضَ عَلی الاضافيِّ، کمَا ہوَ مَعروفٌ۔ کلُّ ذلکَ تَکلُّفٌ وَتَنطُّعٌ وَغفلۃٌ عن الفَنِّ وقواعدِہ؛ وَمدارُ تَحقیقِہمْ وعَنائہمْ عَلی ظنِّہمْ تَعدُّدُ الاحادیثِ؛ ولمْ یدروْا أنّ الحَدیثَ واحدٌ، وإنَّما الاختلافُ فيْ اللفظِ۔ افادہ شیخُنا امامُ العصرِ۔ (معارف السنن:۱؍۲)
	علامہ انور شاہ کشمیریؒ فرماتے ہیں کہ: یہ جو حضراتِ مصنفین ابتداء بالبسملہ والحمدلہ کی روایات میں تطبیق دیتے ہیں کہ، ایک جگہ ابتدائے حقیقی اور ایک جگہ ابتدائے اضافی مراد ہے، یہ صحیح نہیں ہے؛ اِس لیے کہ حدیثِ بسملہ وحمدلہ الگ الگ دو حدیثیں نہیں ہیں کہ اُن دونوں میں تعارض مان کر یہ جواب دیا جائے؛ بلکہ ایک ہی روایت ہے جس کے اندر اضطراب ہے، بعض رُوات حمدلہ کو اور بعض رُوات بسملہ کو ذکر کرتے ہیں ۔
	فالذيْ یَظہرُ من مَجموعِ الأدلّۃِ -واللّٰہُ أعلمْ- أنَّ المَطلوبَ الابتدائُ بذکرِ اللّٰہِ، وَمن أولَی مَا یَحصلُ بہِ ہٰذا المَطلوبُ، البَسملۃُ والحَمدَلۃُ مُجتمعتَینِ أوْ مُنفردۃً إحداہمَا مِن الأُخرَی بِحسبِ مَا یَقتضیْہِ المُقامُ والحالُ، والمُرادُ بالابتدائِ فيْ الحَدیثِ عِنديْ الابتدائُ العُرفيُّ المُمتَدُّ الزَّمانيُّ لاالحَقیقيُّ الآنيُّ۔ واللّٰہُ أعلمْ۔ (فتح الملہم۱؍۳۰۳)
	فوائدِ شتی: (۱)ابتداء بالحمد مخصوص ہے خطاب (بیان وتقریر) کے ساتھ، کتاب، خطوط اُس میں داخل نہیں ہیں ۔ دلیل اِس پر حضور ا کا طرزِ عمل ہے وہ یہ کہ آپ ا اپنا خطبہ ہمیشہ حمد سے شروع فرماتے، الحمد للّٰہ نحمدہ الخ۔ اور خطبہ کے شروع میں بسم اللہ نہ پڑھتے تھے، اِس کے بالمقابل خطوط کی ابتداء صرف بسملہ سے فرماتے، مثلاً: بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم، من محمدٍ رسول اللّٰہ ا إلی ھرقل الخ۔ اور صلح نامۂ حدیبیہ میں ہے: بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم، ہٰذا ما قاضیٰ علیہ رسولُ اللّٰہِ۔ وغیرہ وغیرہ۔ 
	(۲)حمد سے مقصود نفسِ ذکر ہے نہ کہ مخصوص حمد، جیسا کہ مسندِ احمد کی روایت میں تصریح ہے: کلُّ أمرٍ ذيْ بالٍ لمْ یُبدأ بذکرِ اللّٰہِ فَہوَ أقطعُ واَبترُ، اور نفسِ ذکر بسملہ سے حاصل ہوگیا۔
	حمد کہتے ہیں صفاتِ کمالیہ کے اظہار کو، اور یہ معنیٰ یقیناً ’’الرحمٰن الرحیم‘‘ میں حاصل ہوگئے۔ یہ جواب حضرت شیخ کے والد جناب مولانا یحییٰ صاحبؒکو بہت پسند تھا۔ (الدر المنضود:۱؍۷۶)
	ملاحظہ: سورۂ اقرأ کی تفسیر میں حضرت تھانویؒ رقم طراز ہے کہ: اے پیغمبر ا!آپ (پر جو) قرآن نازل ہوا کرے گا، (جس میں اُس وقت کی نازل ہونے والی آیتیں بھی داخل ہیں ) اپنے رب کا نام لے کر پڑھا کیجیے (یعنی جب پڑھیے تو بسم اللہ کہہ کر پڑھا کیجیے، جیسا کہ اِس آیت میں {وَاذا قرأت القرآن فاستعذ باللّٰہ} الخ قرآن غ


x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 أنْوَارُ المَطَالِعْ 1 1
3 جملہ حقوق بحقِ ناشر محفوظ ہیں 2 2
4 مطالعۂ کتب کے راہ نُما اصول 3 2
5 فہرست مضامین 5 2
6 کلمات توثیق ودعا 15 2
7 تقریظ حضرت الاستاذ مولانا قاری عبدالستار صاحب (استاذ حدیث وقراء ت دارالعلوم وڈالی) 17 2
8 مقدمہ 19 2
9 کام کی نوعیت اور کتاب میں رعایت کردہ اُمور 21 8
10 ایک نظر یہاں بھی 22 8
11 مصنف کا مختصر تعارف 22 8
12 مصنفؒ کی دیگر تصانیف 23 8
13 وقت باری تعالیٰ کا ایک قیمتی تحفہ 24 8
14 نظام الاوقات 25 8
15 احتساب 25 8
16 کیا آپ بھی کچھ بننا چاہتے ہیں ؟ 26 8
17 طالب کا کردار، اقوالِ اکابر کی روشنی میں 28 8
18 عُلما، طلبا اور حُفاظ کی فضیلت 29 8
19 حفظِ متون 39 8
20 ملکۂ تحریر پیدا کرنے کا نسخہ 39 8
21 فوائد ثمینہ 39 8
22 پیش لفظ(از مؤلف) 43 2
24 القِسْمُ الأوّلُ في مُطالَعۃِ المُبتدِئیْنَ 47 1
25 معرب،مبنی 52 24
26 منصرف،غیر منصرف 52 24
27 معرفہ، نکرہ 56 24
28 مذکر، مؤنث 57 24
29 واحد، تثنیہ، جمع 59 24
30 [اعرابِ اسمائے متمکنہ] 61 24
31 عَناوین کے اعراب کی تعیین 63 24
32 ابتدائِ کلام میں واقع ہونے والے اسماء 65 24
33 درمیانی کلام میں واقع ہونے والا اسم اور اس کامابعد 66 24
34 تابع، متبوع کی تعیین 70 24
35 متعلقاتِ جملہ فعلیہ 74 24
36 تعیین اجزائِ جملہ فعلیہ 77 24
37 اجزاء جملہ فعلیہ واسمیہ کی شناخت 80 24
38 دو فعل ایک جگہ جمع ہوں 81 24
39 حروفِ معانی 82 24
40 قوانینِ مُہِمہْ 88 24
41 فوائد مختلفہ مہِمَّہ 90 24
42 کلماتِ ذو وجہین 90 24
43 مطالعۂ کتب کے بنیادی اصول 95 24
44 لغت دیکھنے کا طریقہ 96 24
45 القسمُ الثاني في مُطالعۃِ المتوسطِین 99 1
46 بسملہ و حمدلہ 101 45
47 تصلیہ: (صلاۃ علی النبي) 101 45
48 بوقت ابتدائے کتاب اسالیبِِ مصنفین 102 45
49 متن اور طرزِِ تحریر 106 45
50 شرح کی احتیاج اور اس کے دواعی 107 45
51 بہ وقتِ شرح رعایت کردہ اُمور 112 45
52 وہ امور جن کی بہ وقتِ شرح رعایت کی جاتی ہے 112 45
53 متن وشرح میں بہ غرضِ مخصوص مستعمل الفاظ 125 1
54 ماتن کی متانت 127 53
55 ماتن کا لفظِ ’’إعْلمْ‘‘اور اغراضِ ثلاثہ 130 53
56 شارح کی سخاوت 135 53
57 اسالیبِ شرح 135 53
58 فرائضِ شارحین 136 53
59 الفاظِ دفعِ وہم و اعتراض 138 53
60 مطالعۂ کتبِ عربیہ میں مُعِین ۳۸؍ ضروری قواعد وضوابط 143 53
61 وہ ضمائر جن کے مراجع بظاہر مذکور نہیں ہوتے 145 53
62 وجہِ تسمیہ، وجہِ عدول اور کلمۂ اِنَّمَا 147 53
63 شراح کا دلچسپ انداز استدلال اورکلماتِ جواب ودلیل 149 53
64 شرَّاح کا لفظِ ’’اِعلم‘‘ اور مقاصدِ اربعہ 158 53
65 طریقۂ استدلال اور مخالِفین پر رد 159 53
66 دورانِ شرح غیر کا قول نقل کرنے کی اَغراض 159 53
67 اجوبۂ مختلفہ اور اُن کی حیثیات 170 53
68 لفظِ ’’اَیْ‘‘ کا فلسفہ 174 53
69 فائدۂ نافعہ 182 53
70 شارحین کے مخصوص کلماتِ تعریض وکنایہ 184 53
71 عطف کا معیار، واؤ کی تعیین 188 53
72 خاتمۂ کتاب 193 1
73 مختصراً علم کی فضیلت 195 72
74 علوم وفنون کی اہمیت اور اُن میں آپسی ربط 196 72
75 علم المطالعہ کی اہمیت 197 72
77 ایک سچا طالبِ علم اور اُس کے صفات 198 72
78 آداب طالبِ علم 199 72
79 ایک کامیاب طالبِ علم 201 72
80 طریقۂ مطالعہ 203 72
81 ترقیم کے چند قواعد ورموز 207 72
82 رموز اوقاف 207 72
83 یومیہ محاسبہ 209 72
84 رموزِ عددی وکلماتِ مخففہ 210 72
85 کتاب کی فریاد اپنے حامِلین سے 211 72
86 اہم مآخذ ومراجع 212 72
Flag Counter