سے ابتدا پر اکتفا کیا ہے(۱)، جس سے یہ بتانا مقصود ہے کہ جو غرض الحَمْدُ لِلّٰہِ سے تھی، وہ بِسْمِ اللّٰہِ سے پوری ہوگئی ہے رَوْماً لِلْاِخْتِصَارِ۔
یا تو پھر اِس نکتے کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ: مِنْ حِیثُ النُّزول، نیز اولُ سورۃٍ من سُوَرِ القرآنِ سورۂ اقرأہے، جو خود مُصَدَّر بـ’’حمداللّٰہ‘‘ نہیں ہے؛ و في ہذا التوجیہ نظْرٌ۔ فا فہم (۱)۔ ایسے مقام میں اَور بہت سی تو جیہات ہیں جو متعارف بین الطُلَبا ہیں ، لا حاجۃَ
(۱)جن حضرات نے بسملہ پر اکتفاء کیا ہے، اگر بسم اللہ الرحمٰن الرحیم میں لفظ اللہ کو عَلَمٌ لِلذَّاتِ الوَاجِبِ الوُجُودِ المُستجْمِعِ لِجَمِیعِ صِفاتِ الکَمَالِ مراد لیں -جیسا کہ وہ قول اصح ہے- تو گویا لفظ اللہ کے ضمن میں تمام صفات کمالیہ مذکور ہوگئیں ، اور ’’الرحمٰن، الرحیم ‘‘ صفاتِ مخصوصہ میں سے ہیں ۔
اِس اجمال کی تفصیل کچھ اِس طرح ہے کہ: صاحبِ تفسیر ابن کثیر: محمد علی الصابونی تحریر فرماتے ہیں کہ: لفظِ ’’اللہ‘‘ رب تبارک وتعالیٰ کا علم ہے اور اسمِ اعظم ہے۔ کہ جمیع صفاتِ باری کو لفظِ اللہ سے متصف فرمایا ہے۔ کما قال اللہ تعالیٰ: {ہو اللّٰہ الذي لا الٰہ إلا ہو عالم الغیب والشہادۃ ہو الرحمٰن الرحیم} گویا باقی اسمائے الٰہیہ کو (ترکیباً) صفات بنایا ہے۔ (تفسیر ابنِ کثیر:۱۹)
پھر تسمیہ میں لفظ اللہ کی دو صفات: رحمٰن ورحیم کو ذکر کیا جاتا ہے، جو دونوں مادۂ رحمت سے مشتق ہیں اور صفت مشبہ کے صیغے ہیں ، جس میں مبالغہ کے معنیٰ ہے۔ اور رحمۃ کے لغوی معنیٰ رقۃ القلب وانعطافہ علیٰ وجہٍ یقتضی التفضّل والاحسانَ ہے، یعنی دل پر ایسی رقت اور نرمی کا طاری ہونا جو فضل واحسان کی متقاضی ہو؛ اگرچہ باری تعالیٰ پر صفتِ رحمت کے اطلاق سے فعلِ رحمت کے مبادی: رقتِ قلب وغیرہ مراد نہیں ہے -جسے انفعال (اثر قبول کرنا) سے تعبیر کیا جاتا ہے-؛ کیوں کہ وہ ذات جسم وجسمانیت سے بالاتر ہے؛ لیکن اس صفتِ رحمت کا منتہیٰ واثرمرادہے یعنی احسان کرنا، جسے فعل (اثر ڈالنا) سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
رہی یہ بات کہ کیا تسمیہ پر اکتفاء جائز ہے؟ مفسرِ قرآن صاحبِ جواہر تحریر فرماتے ہیں : الہَمَ اللّٰہ (الانبیاء) وأوحیٰ الیہم أن یُعلّموا العباد، کیفَ یَتبرَّکون باسمِ اللّٰہ في أول أَعمالہم، کالقرأۃ والأکلِ ذاکرینَ ربَّہم ورحمتَہ الواسعۃَ التيْ عمَّت سائر العَوالمِ، فیَتمتَّع قلبُ العبدِ إیقاناً بالرحمۃِ واستبشاراً بالنعمۃِ وفرحاً برحمۃ الرحمانِ الرحیم؛ فإذا ابتدأ القاري بالتسمیۃ، وامتلأَ قلبُہ بتلکَ الرحمۃِ فلاجَرمَ یَمتلأُ لسانُہ بالحَمدِ۔ (الجواہر في تفسیر القرآن،ص:۵)
گویا عند التسمیہ قاری کا دل رحمت رحمان ورحیم سے سر شار ہوجاتا ہے، اور اُس سے حمدِ باری ہو ہی جاتی ہے؛ لہٰذا مستقلاً حمدِ باری کو ذکر نہ کرنے پر نقض نہیں کیا جاسکتا۔(مرتب)
(۱) ابتدائے کتاب میں بسملہ وحمدلہ پر اکابر کی تحقیق حدیث کی روشنی میں حسبِ ذیل ہے:
حدیث: کل أمرٍ ذي بالٍ لمْ یُبدأ فیہِ بِبسمِ اللّٰہِ فَھوَ أقطعُ۔ اِضطربَ لَفظُہٗ، ففيْ لَفظٍ:’’بِحَمدِ غ