Deobandi Books

انوار المطالع فی ھدایات المطالع

103 - 214
سے ابتدا پر اکتفا کیا ہے(۱)، جس سے یہ بتانا مقصود ہے کہ جو غرض الحَمْدُ لِلّٰہِ سے تھی، وہ  بِسْمِ اللّٰہِ سے پوری ہوگئی ہے رَوْماً لِلْاِخْتِصَارِ۔
	 یا تو پھر اِس نکتے کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ: مِنْ حِیثُ النُّزول، نیز اولُ سورۃٍ من سُوَرِ القرآنِ سورۂ اقرأہے، جو خود مُصَدَّر بـ’’حمداللّٰہ‘‘ نہیں ہے؛ و في ہذا التوجیہ نظْرٌ۔ فا فہم (۱)۔ ایسے مقام میں اَور بہت سی تو جیہات ہیں جو متعارف بین الطُلَبا ہیں ، لا حاجۃَ
                                              
	(۱)جن حضرات نے بسملہ پر اکتفاء کیا ہے، اگر بسم اللہ الرحمٰن الرحیم میں لفظ اللہ کو عَلَمٌ لِلذَّاتِ الوَاجِبِ الوُجُودِ المُستجْمِعِ لِجَمِیعِ صِفاتِ الکَمَالِ   مراد لیں -جیسا کہ وہ قول اصح ہے- تو گویا لفظ اللہ کے ضمن میں تمام صفات کمالیہ مذکور ہوگئیں ، اور ’’الرحمٰن، الرحیم ‘‘ صفاتِ مخصوصہ میں سے ہیں ۔
	اِس اجمال کی تفصیل کچھ اِس طرح ہے کہ: صاحبِ تفسیر ابن کثیر: محمد علی الصابونی تحریر فرماتے ہیں کہ: لفظِ ’’اللہ‘‘ رب تبارک وتعالیٰ کا علم ہے اور اسمِ اعظم ہے۔ کہ جمیع صفاتِ باری کو لفظِ اللہ سے متصف فرمایا ہے۔ کما قال اللہ تعالیٰ: {ہو اللّٰہ الذي لا الٰہ إلا ہو عالم الغیب والشہادۃ ہو الرحمٰن الرحیم} گویا باقی اسمائے الٰہیہ کو (ترکیباً) صفات بنایا ہے۔ (تفسیر ابنِ کثیر:۱۹)
	پھر تسمیہ میں لفظ اللہ کی دو صفات: رحمٰن ورحیم کو ذکر کیا جاتا ہے، جو دونوں مادۂ رحمت سے مشتق ہیں اور صفت مشبہ کے صیغے ہیں ، جس میں مبالغہ کے معنیٰ ہے۔ اور رحمۃ کے لغوی معنیٰ رقۃ القلب وانعطافہ علیٰ وجہٍ یقتضی التفضّل والاحسانَ ہے، یعنی دل پر ایسی رقت اور نرمی کا طاری ہونا جو فضل واحسان کی متقاضی ہو؛ اگرچہ باری تعالیٰ پر صفتِ رحمت کے اطلاق سے فعلِ رحمت کے مبادی: رقتِ قلب وغیرہ مراد نہیں ہے -جسے انفعال (اثر قبول کرنا) سے تعبیر کیا جاتا ہے-؛ کیوں کہ وہ ذات جسم وجسمانیت سے بالاتر ہے؛ لیکن اس صفتِ رحمت کا منتہیٰ واثرمرادہے یعنی احسان کرنا، جسے فعل (اثر ڈالنا) سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
	رہی یہ بات کہ کیا تسمیہ پر اکتفاء جائز ہے؟ مفسرِ قرآن صاحبِ جواہر تحریر فرماتے ہیں : الہَمَ اللّٰہ (الانبیاء) وأوحیٰ الیہم أن یُعلّموا العباد، کیفَ یَتبرَّکون باسمِ اللّٰہ في أول أَعمالہم، کالقرأۃ والأکلِ ذاکرینَ ربَّہم ورحمتَہ الواسعۃَ التيْ عمَّت سائر العَوالمِ، فیَتمتَّع قلبُ العبدِ إیقاناً بالرحمۃِ واستبشاراً بالنعمۃِ وفرحاً برحمۃ الرحمانِ الرحیم؛ فإذا ابتدأ القاري بالتسمیۃ، وامتلأَ قلبُہ بتلکَ الرحمۃِ فلاجَرمَ یَمتلأُ لسانُہ بالحَمدِ۔ (الجواہر في تفسیر القرآن،ص:۵)
	گویا عند التسمیہ قاری کا دل رحمت رحمان ورحیم سے سر شار ہوجاتا ہے، اور اُس سے حمدِ باری ہو ہی جاتی ہے؛ لہٰذا مستقلاً حمدِ باری کو ذکر نہ کرنے پر نقض نہیں کیا جاسکتا۔(مرتب)
	 (۱) ابتدائے کتاب میں بسملہ وحمدلہ پر اکابر کی تحقیق حدیث کی روشنی میں حسبِ ذیل ہے:
	حدیث: کل أمرٍ ذي بالٍ لمْ یُبدأ فیہِ بِبسمِ اللّٰہِ فَھوَ أقطعُ۔ اِضطربَ لَفظُہٗ، ففيْ لَفظٍ:’’بِحَمدِ غ


x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 أنْوَارُ المَطَالِعْ 1 1
3 جملہ حقوق بحقِ ناشر محفوظ ہیں 2 2
4 مطالعۂ کتب کے راہ نُما اصول 3 2
5 فہرست مضامین 5 2
6 کلمات توثیق ودعا 15 2
7 تقریظ حضرت الاستاذ مولانا قاری عبدالستار صاحب (استاذ حدیث وقراء ت دارالعلوم وڈالی) 17 2
8 مقدمہ 19 2
9 کام کی نوعیت اور کتاب میں رعایت کردہ اُمور 21 8
10 ایک نظر یہاں بھی 22 8
11 مصنف کا مختصر تعارف 22 8
12 مصنفؒ کی دیگر تصانیف 23 8
13 وقت باری تعالیٰ کا ایک قیمتی تحفہ 24 8
14 نظام الاوقات 25 8
15 احتساب 25 8
16 کیا آپ بھی کچھ بننا چاہتے ہیں ؟ 26 8
17 طالب کا کردار، اقوالِ اکابر کی روشنی میں 28 8
18 عُلما، طلبا اور حُفاظ کی فضیلت 29 8
19 حفظِ متون 39 8
20 ملکۂ تحریر پیدا کرنے کا نسخہ 39 8
21 فوائد ثمینہ 39 8
22 پیش لفظ(از مؤلف) 43 2
24 القِسْمُ الأوّلُ في مُطالَعۃِ المُبتدِئیْنَ 47 1
25 معرب،مبنی 52 24
26 منصرف،غیر منصرف 52 24
27 معرفہ، نکرہ 56 24
28 مذکر، مؤنث 57 24
29 واحد، تثنیہ، جمع 59 24
30 [اعرابِ اسمائے متمکنہ] 61 24
31 عَناوین کے اعراب کی تعیین 63 24
32 ابتدائِ کلام میں واقع ہونے والے اسماء 65 24
33 درمیانی کلام میں واقع ہونے والا اسم اور اس کامابعد 66 24
34 تابع، متبوع کی تعیین 70 24
35 متعلقاتِ جملہ فعلیہ 74 24
36 تعیین اجزائِ جملہ فعلیہ 77 24
37 اجزاء جملہ فعلیہ واسمیہ کی شناخت 80 24
38 دو فعل ایک جگہ جمع ہوں 81 24
39 حروفِ معانی 82 24
40 قوانینِ مُہِمہْ 88 24
41 فوائد مختلفہ مہِمَّہ 90 24
42 کلماتِ ذو وجہین 90 24
43 مطالعۂ کتب کے بنیادی اصول 95 24
44 لغت دیکھنے کا طریقہ 96 24
45 القسمُ الثاني في مُطالعۃِ المتوسطِین 99 1
46 بسملہ و حمدلہ 101 45
47 تصلیہ: (صلاۃ علی النبي) 101 45
48 بوقت ابتدائے کتاب اسالیبِِ مصنفین 102 45
49 متن اور طرزِِ تحریر 106 45
50 شرح کی احتیاج اور اس کے دواعی 107 45
51 بہ وقتِ شرح رعایت کردہ اُمور 112 45
52 وہ امور جن کی بہ وقتِ شرح رعایت کی جاتی ہے 112 45
53 متن وشرح میں بہ غرضِ مخصوص مستعمل الفاظ 125 1
54 ماتن کی متانت 127 53
55 ماتن کا لفظِ ’’إعْلمْ‘‘اور اغراضِ ثلاثہ 130 53
56 شارح کی سخاوت 135 53
57 اسالیبِ شرح 135 53
58 فرائضِ شارحین 136 53
59 الفاظِ دفعِ وہم و اعتراض 138 53
60 مطالعۂ کتبِ عربیہ میں مُعِین ۳۸؍ ضروری قواعد وضوابط 143 53
61 وہ ضمائر جن کے مراجع بظاہر مذکور نہیں ہوتے 145 53
62 وجہِ تسمیہ، وجہِ عدول اور کلمۂ اِنَّمَا 147 53
63 شراح کا دلچسپ انداز استدلال اورکلماتِ جواب ودلیل 149 53
64 شرَّاح کا لفظِ ’’اِعلم‘‘ اور مقاصدِ اربعہ 158 53
65 طریقۂ استدلال اور مخالِفین پر رد 159 53
66 دورانِ شرح غیر کا قول نقل کرنے کی اَغراض 159 53
67 اجوبۂ مختلفہ اور اُن کی حیثیات 170 53
68 لفظِ ’’اَیْ‘‘ کا فلسفہ 174 53
69 فائدۂ نافعہ 182 53
70 شارحین کے مخصوص کلماتِ تعریض وکنایہ 184 53
71 عطف کا معیار، واؤ کی تعیین 188 53
72 خاتمۂ کتاب 193 1
73 مختصراً علم کی فضیلت 195 72
74 علوم وفنون کی اہمیت اور اُن میں آپسی ربط 196 72
75 علم المطالعہ کی اہمیت 197 72
77 ایک سچا طالبِ علم اور اُس کے صفات 198 72
78 آداب طالبِ علم 199 72
79 ایک کامیاب طالبِ علم 201 72
80 طریقۂ مطالعہ 203 72
81 ترقیم کے چند قواعد ورموز 207 72
82 رموز اوقاف 207 72
83 یومیہ محاسبہ 209 72
84 رموزِ عددی وکلماتِ مخففہ 210 72
85 کتاب کی فریاد اپنے حامِلین سے 211 72
86 اہم مآخذ ومراجع 212 72
Flag Counter