إلیٰ ذکرِہا لِطُولِ الکلام، و الخُروجِ مِنَ المُرامِ۔
۲-جب کہ بعضے مصنفین بسملہ، حمدلہ و تصلیہ کے ذکر سے فارغ ہوکر فوراًاپنے مقصود اصلی کو شروع کردیتے ہیں ۔
۳-بعضے حضرات اُس علم کی تعریف(۱)، موضوع، غرض و غایت(۲) اور منفعت بھی بیان کرتے ہیں ۔
۴-بعضے حضرات اِس علم کی تعریف، موضوع(۱)، غرض و غایت اور منفعت کے ساتھ، اِس علم کا رتبہ، علم و کتاب میں قسمتِ ابواب(۲)، اِنحاء تعلیم(۳) (تقسیم، تحلیل، تحدید، ترکیب)(۴) اور مُوجدِ علم کا نام تک ذکر کرتے ہیں ۔
ـکے ساتھ اعوذ باللہ پڑھنے کا حکم ہوا ہے، اور اِن دونوں امر سے جو اصل مقصود ہے یعنی توکل واستعانت وہ تو واجب ہے، اور زبان سے کہنا مسنون ومندوب ہے۔ اور گو اصل مقصود کے اعتبار سے اِس آیت کے نزول کے وقت بسم اللہ کا آپ کو معلوم ہونا ضروری نہیں ؛ لیکن بعض روایات میں اِس سورۃ کے ساتھ بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم کا نازل ہونا بھی آیا ہے۔ (بیان القرآن:۱۰۷)
(۱) سوائٌ کان حدّاً أو رسماً تامّاً أو ناقِصاً؛ لأنَّ معرَفۃَ ذلکَ العلمِ بوجہٍ منَ الوُجوہِ واجبٌ۔ مصنف
(۲) قولہ غرضٌ وغایۃٌ: ہما مُتَّحدانِ بالذاتِ مُختَلِفان بالاعتبارِ، فمِنْ حیثُ أنہٗ باعِثٌ علیٰ تَحصیلِ العلمِ غَرْضٌ، ومِنْ حیثُ أنَّہ مُرتَّبٌ علیٰ تحصیلِ العلمِ غَایَۃٌ۔مصنف
(۱)مَوضوعُ العِلمِ: مَا یُبحثُ فیہِ عنْ عَوارضِہِ الذَّاتِیَّۃِ لا عنْ وجودِ المَوضوعِ یُبحثُ، وَلا عنْ ماہیَّتِہِ فيْ العِلمِ الذيْ ہوَ مَوضوعٌ لہٗ؛ وَلٰکنْ اعْتَذَرَ مِنْ قبلُ مَن اِرتکَبَ ہٰذا الأمرَ یکونُ المَبحثُ اسْتِطرادیاً۔ مصنف۔ یعنی علوم میں موضوع کے وجود سے بحث نہیں کی جاتی؛ بلکہ موضوع پر پیش آنے والے عوارضات سے بحث ہوتی ہے۔
(۲)کتاب، باب اور فصل کی تعریفات ’’دستور الطلباء‘‘ میں ملاحظہ فرمائیں ۔مرتب
(۳) مناہجِ تعلیم چار ہیں : تقسیم، تحلیل تحدید اور دلیل۔
تقسیم: اوپر (مقسم)سے نیچے(اقسام) کی طرف تقسیم کرکے بات سمجھانا۔ (۲)تحلیل: تقسیم کا بر عکس طریقہ ہے( یعنی نیچے کی قسموں سے اوپر (مَقسَم) کی طرف جانا)۔ (۳)تحدید: کسی مسئلے کو ذکر کرنے سے پہلے ضروری اصطلاحات کی تعریفات بیان کرنا۔ (۴)دلیل: برہان اور حجت بیان کرنا؛ تاکہ متعلم حق بات تک پہنچ سکے۔ مرتب
التقسیم: ھو التکثیر من فوق الیٰ تحت؛ والتحلیل : عکسہ؛ والبرھان: طریق موثوق بہ موصل إلَی الحق۔ مصنف
(۴): ترکیب سے مراد برہان و دلیل ہے ان کی تعریفات ’’دستور الطلباء‘‘ میں ملاحظہ فرمائیں ۔ مرتب