﴿تیسرا مسئلہ﴾―☼☼☼آمین آہستہ کہنا☼☼☼―
سورۃ الفاتحہ کے اختتام پر ایک لفظ”آمین“ کہا جاتا ہےجو در اصل اللہ تعالیٰ سے دُعاء کی قبولیت کی ایک درخواست ہے ،اِسی لئے اس کا مطلب یہ بیان کیا جاتا ہے کہ :”اے اللہ! میری دُعاء قبول فرمالے۔نماز میں پڑھی جانے والی سورۃ الفاتحہ کے اختتام پر اِس کو آہستہ پڑھا جائے یا زور سے ، اِس بارے میں کُتبِ احادیث کے اندر دونوں طرح کی روایات پائی جاتی ہیں جن سے سراً یا جہرا دونوں طرح آمین کہناثابت ہوتا ہے،اِسی لئے فقہاء و محدّثین اور ائمہ مجتہدین کے درمیان اُن روایات کی ترجیح میں اختلاف ہوا ہے۔ ائمہ اربعہ میں سے اِمام شافعی اور اِمام احمد بن حنبلآمین جہراً کہنے کے قائل ہیں ، جبکہ اِمام مالک اور اِمام ابوحنیفہسراً آمین کہنے کی روایات کو ترجیح دیتے ہوئے سرّاً کہنے کے قائل ہیں۔(الفقہ على المذاہب الاربعۃ: 1\216)
ذیل میں آہستہ آمین کہنے کی روایات کے راجح ہونے کی وجوہات اور اُن کے دلائل ذکر کیے جارہے ہیں جن سے اِس مسئلہ کو بہت اچھی طرح سمجھا جاسکتا ہے :
(1)ـــپہلی دلیل:قرآن کریم:
(1)اللہ تبارک و تعالیٰ کا اِرشاد ہے:﴿اُدْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَخُفْيَةً إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ﴾ترجمہ:تم اپنے پروردگار کو عاجزی کے ساتھ چپکے چپکے پکارا کرو،یقیناً وہ حد سے گزرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔(الأعراف:55،آسان ترجمہ قرآن)
وضاحت:مذکورہ آیت میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے آہستہ دُعاء کرنے کا حکم دیا ہے