ہو ں، اور اس میں کسی کا کبھی کوئی اختلاف نہ رہا ہو ،نیز اُس مسئلہ کو ابتداء ہی سے تَلقّی بالقبول یعنی اُمّت میں عمومی قبولیت کادرجہ حاصل رہا ہو اُس کی مُخالفت کرتے ہوئے اپنی رائے کو دین و شریعت کی حیثیت دینا سوائے ضلالت و گمراہی کے کیا ہوسکتا ہے۔
ذیل میں 20 رکعات تراویح کےواضح دلائل ذکر کیے جارہے جس کو تعصّب کی عینک اُتار کر پڑھیے اور آنے والے دلائل پر غور کیجئے، اِن شاء اللہ حق بات کے سمجھنے میں کوئی رُکاوٹ نہیں رہے گی۔بیشک اللہ تعالیٰ ہی توفیق دینے والا ہے۔
(1)ـــپہلی دلیل:نبی کریمﷺکا عَمل:
(1)عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ:كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي فِي رَمَضَانَ عِشْرِينَ رَكْعَةً وَالْوِتْرَ۔(طبرانی کبیر:12102)(ابن ابی شیبہ:7692)
ترجمہ:حضرت عبد اللہ بن عباس سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺرمضان میں 20 رکعتیں اور وتر پڑھا کرتے تھے۔
فائدہ:یہ حدیثِ مَرفوع ہے، اِس کے راویوں میں سوائے ”اِبراہیم بن عُثمان“کے تمام راوی ثقہ ہیں ، اور اِبراہیم بن عُثمان بھی متفقہ طور پر ضعیف نہیں ہیں،بلکہ بعض حضرات کی جانب سے اُن کی توثیق بھی کی گئی ہے ، لہٰذا صرف ایک مذکورہ راوی کی وجہ سے حدیث کو ناقابلِ اِعتبار نہیں قرار دیا جاسکتا ۔ علاوہ اَزیں بہت سی دیگر احادیثِ صحیحہ اور آثارِ قویّہ (جن کی تفصیل آگے آرہی ہے) سے اِس مذکورہ روایت کی تائید بھی ہوتی ہے جن میں صراحۃً تراویح کا 20 رکعت ہونا بیان کیا گیا ہے،اور اِس سب سے بڑھ کر جمہور صحابہ کرام رِضوان اللہ علیہم أجمعین کا 20رکعت تَراویح پر تعامل اور اِتفاق اِ س روایت کی صحت کی بہت بڑی دلیل ہے جس کے بعد اِس روایت پر کوئی کلام