بسم اللہ الرحمن الرحیم
حرفِ آغاز
اللہ تعالیٰ نے جو ہمیں دین یعنی ”دینِ اِسلام“عطاء کیا ہے اُس کاسب سے بڑا اور نمایاں وصف ”اعتدال“ہے،جس میں اِفراط و تفریط سے محفوظ ایک ایسا جامع ،وَسیع اور مکمل دستورِ حیات پیش کیا گیا ہے کہ اس سے بہتر اور اس سے خوبصورت کوئی دستور ِحیات قیامت تک نہیں پیش کیا جاسکتا ۔اور اِسی وجہ سےاللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن کریم میں اِس اُمّت کو ”اُمّتِ وَسط“یعنی ایک معتدل اُمّت قرار دیا ہے۔(البقرۃ:90)
لہٰذا اُمّت ِ مسلمہ کو چاہیئے کہ زندگی کے ہر شعبہ میں اپنے اِس نمایاں وَصف سے متصف ہوکراس کو اُجاگر کرنے اور اُس میں نکھار پیدا کرنے کیلئے ہمہ وقت کوشاں رہےتاکہ زندگی کےکسی بھی موڑ پر اعتدال کا دامن ہاتھ سے چھوٹنے نہ پائے۔
حضرت عبد اللہ بن عباسنبی کریمﷺکایہ اِرشاد نقل فرماتے ہیں:”إِنَّ الْهَدْيَ الصَّالِحَ، وَالسَّمْتَ الصَّالِحَ، وَالِاقْتِصَادَ جُزْءٌ مِنْ خَمْسَةٍ وَعِشْرِينَ جُزْءًا مِنَ النُّبُوَّةِ“ترجمہ:بیشک عُمدہ چال چلن،اچھی حالت اور(قولی و فعلی تمام اُمور میں) میانہ رَوی اختیار کرنا نبوّت کے پچیس اَجزاء میں سے ایک جُزء ہے۔(ابوداؤد:4776)
لیکن ا س کے برخلاف مُعاشرے میں بعض ناعاقبت اندیش لوگوں کی جانب سے یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ وہ اِس جادہ ِ حق یعنی طریقِ اِعتدال سے ہٹ کر اِفراط ،تشدّد اور غُلو کی راہ اختیار کرتے ہیں ،شریعت کے مَسلکی اور فُروعی اختلافات جن کو بزبانِ نبوّت