راوی حضرت کثیر بن مُرّہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابودرداء(اِس حدیث کو سنانے کے بعد)میری جانب متوجّہ ہوئے اور میں لوگوں میں اُن کے سب سے زیادہ قریب تھا،پس اُنہوں نے فرمایا:اے کثیر !میں تو صرف یہی سمجھتا ہوں کہ اِمام جب کسی قوم کی اِمامت کرےتووہ(قراءت کرنے میں) سب کی طرف سے کافی ہے۔
(22)ـــبائیسویں دلیل:حضرت عبد اللہ بن عُمرکا فتویٰ:
(1)”عَنْ نَافِعٍ وَأَنَسِ بْنِ سِيرِينَ أَنَّهُمَا حَدَّثَا عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللهُ عَنهُمَا أَنَّهُ قَالَ فِي الْقِرَاءَةِ خَلْفَ الْإِمَامِ:«تَكْفِيكَ قِرَاءَةُ الْإِمَامِ»“۔(دار قطنی:1503)
ترجمہ:حضرت عبد اللہ بن عُمرسے مَروی ہے،وہ اِمام کے پیچھے قراءت کرنے کے بارے میں فرماتے ہیں کہ تمہارے لئےاِمام کی قراءت ہی کافی ہے۔
(2)”عَنْ نَافِعٍ، أَنَّ عَبْدَ اللهِ بْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللهُ عَنهُمَا كَانَ إِذَا سُئِلَ: هَلْ يَقْرَأُ أَحَدٌ خَلْفَ الإِمَامِ؟ يقول: إِذَا صَلَّى أَحَدُكُمْ خَلْفَ الإِمَامِ فَحَسْبُهُ قِرَاءَةُ الإِمَامِ، وَإِذَا صَلَّى وَحْدَهُ فَلْيَقْرَأْ، قَالَ: وَكَانَ عَبْدُ اللهِ بْنُ عُمَرَ لاَ يَقْرَأُ خَلْفَ الإِمَامِ“۔ (مؤطاء مالک:251)
ترجمہ: حضرت عبد اللہ ابن عمر سے جب امام کے پیچھے قرأت کرنے کے بارے میں پوچھا جاتا تو فرماتے :جب تم میں سے کوئی شخص امام کے پیچھے نماز پڑھے تو اُس کے لئے امام کی قرأت ہی کافی ہے ، اور جب اکیلے نماز پڑھے تو اُسے قرأ ت کرنی چاہیے۔حضرت نافع فرماتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ ابن عمر اِمام کے پیچھے
قرأت نہیں کیا کرتے تھے۔
(3)” عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ كَانَ يَنْهَى عَنِ الْقِرَاءَةِ خَلْفَ