اِمام کے پیچھے ہو تو اِمام کی قراءت ہی اُس کیلئے قراءت ہے۔
(11)ـــگیارہویں دلیل:مؤطاء اِمام محمّد:
”عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَدَّادِ بْنِ الْهَادِ قَالَ:أمَّ رسول الله صلى الله عليه وسلم في العصرقَالَ: فَقَرَأَ رَجُلٌ خَلْفَهُ فَغَمَزَهُ الَّذِي يَلِيهِ، فَلَمَّا أَنْ صَلَّى قَالَ: لِمَ غَمَزْتَنِي؟ قَالَ:كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُدّامَك، فَكَرِهْتُ أَنْ تَقْرَأَ خَلْفَهُ، فَسَمِعَهُ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم قال: من كان لَهُ إِمَامٌ فَإِنَّ قِرَاءَتَهُ لَهُ قِرَاءَةٌ“۔ (مؤطاء امام محمد:98)
ترجمہ:حضرت عبد اللہ بن شدادفرماتے ہیں کہ نبی کریمﷺنے عصر کی نماز میں اِمامت کی،ایک شخص نےآپﷺکے پیچھےقراءت کی،اُس کےساتھ میں کھڑے شخص نے اُس کو(قراءت سے منع کرنے کیلئے) چٹکی نوچی،جب نماز ہوگئی تو اُس شخص نے (چٹکی نوچنے والے سے)کہا: تم نے مجھے چٹکی کیوں نوچی تھی؟ تو اُ س نے جواب دیا : نبی کریمﷺتمہارے آگے قراءت کررہے تھےاِس لئے میں نے یہ ناپسند کیا کہ تم حضورﷺکے پیچھے قراءت کرو،نبی کریمﷺنے یہ گفتگو سنی تو فرمایا:جس شخص کا امام ہو تو اُس امام کی قراءت ہی مقتدی کی قراءت ہے۔
(12)ـــبارہویں دلیل:شرح مَعانی الآثار:
(1)”عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ:صَلَّى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ أَقْبَلَ بِوَجْهِهِ فَقَالَ:«أَتَقْرَءُونَ وَالْإِمَامُ يَقْرَأُ» فَسَكَتُوا فَسَأَلَهُمْ ثَلَاثًا فَقَالُوا إِنَّا لَنَفْعَلَ، قَالَ:فَلَا تَفْعَلُوا“۔(طحاوی:1302)
ترجمہ : ایک دفعہ نبی کریمﷺنے نماز پڑھائی پھراپنے رخِ انور سے صحابہ کرام