اِمام ترمذینے حضرت شُعبہ کی مذکورہ روایت پر جو اِشکالات ذکر کیے ہیں اُن کی
تفصیل مع جوابات ملاحظہ فرمائیں:
(1)۔۔۔پہلا اِشکال:حضرت شُعبہنےسَند میں حضرت حُجر کو”ابو العَنبس“ کہا ہے جبکہ حقیقت میں یہ لفظ ”ابو العَنبس“نہیں”حُجر بن عَنبس“ ہے،بلکہ حضرت حُجر کی کنیت تو”ابو السَّکن“ذکر کی گئی ہے۔
جواب:حضرت حُجر کی کنیت میں ”ابو العَنبس“کو غلط کہنا درست نہیں ،اِس لئے کہ کئی محدّثین نے ان کی کنیت میں”ابو العَنبس“کا لفظ ذکر کیا ہے،چنانچہ حافظ ابن حجر عسقلانینےحضرت حُجر کی کنیت”ابو العَنبس“ذکر کی ہے،چنانچہ اُن کی کتاب تہذیب التہذیب میں دیکھئے:۔(تہذیب التہذیب :2/215)
علاہو ازیں حضرت حُجرکی کنیت ”ابو العَنبس“کو صرف حضرت شُعبہہی نے ذکر نہیں کیا بلکہ اور بھی کئی راویوں نے ان کی یہ کنیت ذکر کی ہے،چنانچہ حضرت محمد بن کثیر،حضرت وَکیع اور حضرت مُحاربی یہ سب ایسے راوی ہیں جنہوں نے حضرت سفیانسے روایت نقل کرتے ہوئے حضرت حُجر کی کنیت ”ابو العَنبس“ہی ذکر کی ہے،جن کی تفصیل کیلئے بیہقی ،دار قطنی اور ابوداؤد کی روایات کو دیکھا جاسکتا ہے،بلکہ ابوداؤد میں خود حضرت سفیانکی روایت میں بھی حضرت حُجرکی کنیت ”ابو العَنبس“ ہی ذکر کی گئی ہے،لہٰذا صرف حضرت شُعبہ پر یہ اعتراض کیسے کیا جاسکتا ہے کہ اُن سےحضرت حُجر کی کنیت کو ذکرکرنے میں وَہم ہوا ہے ۔
باقی رہا یہ کہنا کہ اُن کی کنیت ”ابو السکن“ذکر کی گئی ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس میں کوئی حرج نہیں،اِس لئے کہ ایک ہی شخص کی دو یا اس سے بھی زائدکنیتیں بھی