کرنے کیلئے ترجیح کے طریقے پر عمل کیا گیا ہے ،آمین بالجہر کے قائلین نے حضرت سفیان ثوریکی روایت کو ترجیح دی ہے جبکہ آمین بالسّر کے مسلَک کو اختیار کرنے والے اِمام شُعبہ کی روایت کو ترجیح دیتے ہیں۔
﴿آمین بالسّر کی روایت کے راجح ہونے کی وجوہات﴾
حضرت شُعبہ کی روایت جس میں آمین کا سراً ہونا مذکور ہے،اُس کے راجح ہونے کی مندرجہ ذیل وجوہات ہیں:
(1)آمین کے آہستہ کہنے کی روایت اَوفَق بالقرآن یعنی قرآن کریم کے زیادہ مطابق ہے،اِس لئے کہ ”آمین“بالاتفاق ایک دُعائیہ کلمہ ہے اور دُعاء کے بارے میں قرآن کریم کا حکم یہ ہے کہ اُسے آہستہ مانگنا چاہیئے ،پس اِسی لئے آمین کا کلمہ بھی آہستہ ہی کہنا چاہیئے ۔
(2)آمین کے آہستہ کہنے پربہت سے صحابہ کرام حتی کہ خلفاء راشدین اورحضرت عبد اللہ بن مسعود اور تابعین کا بھی عمل ہے جو خود ایک بہت بڑی وجہ ترجیح ہے جس سے حضرت شُعبہکی آمین بالسّر کی روایت کا راجح ہونا معلوم ہوتا ہے۔
(3)نبی کریمﷺکازورسے آمین کہنا تعلیم و تلقین کیلئے یعنی سکھانے کیلئے تھا ،مستقل عادتِ شریفہ نہیں تھی ،چنانچہ خود صحابی رسول حضرت ابووائل بن حجر نےاس کی صراحت کی ہے،چنانچہ وہ فرماتے ہیں:”فَقَالَ:«آمِينَ»يَمُدُّ بِهَا صَوْتَهُ مَا أَرَاهُ إِلَّا يُعَلِّمُنَا“یعنی آپ ﷺنے(سورۃ الفاتحہ کے بعد)بلند آواز سے آمین کہا ،جس کے بارے میں میرا خیال یہی ہے کہ آپ ﷺنےہمیں سکھانے کیلئے زور سے آمین کہا تھا۔( الکنیٰ و الاسماء للدولابی:1090)