اور آمین کہنا بھی ایک دُعاء ہے،چنانچہ:
(1)حضرت عطاء فرماتے ہیں: آمین کہنا دُعاء ہے۔(بخاری:1/156)
(2)حضرت ہاروننےحضرت موسیٰکی دُعاء پر جو آمین کہا تھا اُس کو بھی قرآن کریم میں ”دُعاء“قرار دیا گیاہے۔(یونس:89)(تفسیر بغوی)
(3)آمین کامعنی ہی دُعاء کے ہیں،چنانچہ اس کےمعنی”اِسْمَعْ وَاسْتَجِبْ“کے ہیں، یعنی اے اللہ! سن لیجئے اور قبول فرمالیجئے۔
لہٰذا مذکورہ بالا وجوہات کی بنیاد آمین بھی قرآن کریم کے مطابق آہستہ اور خفیہ کہنا چاہیئے تاکہ دُعاء کے اَدب کا لحاظ اور اُس کی رِعایت کی جاسکے۔
(2)اللہ تبارک وتعالیٰ کا اِرشاد ہے:
﴿وَاذْكُرْ رَبَّكَ فِي نَفْسِكَ تَضَرُّعًا وَخِيفَةً وَدُونَ الْجَهْرِ مِنَ الْقَوْلِ﴾
ترجمہ:اوراپنے رب کو اپنے دل میں عاجزی کرتا ہوا اور ڈرتاہوا یاد کرتا رہ اور صبح اور شام بلند آواز کی نسبت ہلکی آواز سے۔(الأعراف:205،ترجمہ احمد علی لاہوری)
وضاحت:
لفظِ آمین کو اللہ کے ناموں میں سے ایک نام بھی کہا گیا ہے ،چنانچہ کئی روایات میں ہے:”آمِينَ:اسْمٌ مِنْ أَسْمَاءِ اللَّهِ“یعنی آمین اللہ کے ناموں میں سے ایک نام ہے۔(مصنّف ابن ابی شیبہ:7971)پس گویا آمین کہنے والا اللہ کا ذکر کرتا ہے اورذکر میں اصل ”اِخفاء“ یعنی ہلکے ذکر کرناہے،چنانچہ مذکورہ آیت میں اللہ تعالیٰ نے آہستہ ذکر کرنے کا حکم دیا ہے ،پس اِس سے معلوم ہواکہ آمین آہستہ کہنا چاہیئے تاکہ ذکرکے اَدب کا لحاظ اور اُس کی رِعایت کی جاسکے۔