﴿پہلا مسئلہ﴾ ―☼☼☼قراءت خلف الامام☼☼☼―
جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کی صورت میں اِمام کے پیچھےسورۃ الفاتحہ کے بعد کسی سورت یا آیت کے نہ پڑھنے پر جمہور صحابہ و تابعین اور تمام فقہاء و محدّثین کا اِجماع اور اِتفاق ہے،اور اس میں کسی کا کوئی اختلاف نہیں،البتہ اِمام کے پیچھے سورۃ الفاتحہ کے پڑھنے نہ پڑھنے کے بارے میں رائے اور اجتہاد کا اختلاف رہا ہے ، اور بنیادی طور پراس میں تین رائے ذکر کی گئی ہیں : (1)ایک رائے یہ ہے کہ سرّی و جہری تمام نمازوں میں اِمام کے پیچھےسورۃ الفاتحہ پڑھی جائے گی اوراس کےقائل حضرت اِمام شافعیہیں (2)دوسری رائے یہ ہےکہ جہری و سرّی تمام نمازوں میں اِمام کے پیچھےسورۃ الفاتحہ نہیں پڑھی جائے گی،بلکہ مقتدی کو چاہیئے کہ ہر صورت میں اِمام کے پیچھے خاموش رہے اور یہ حضرات احناف کا مسلَک ہے۔(3) تیسری رائے یہ ہے کہ سری نمازوں میں اِمام کے پیچھے سورۃ الفاتحہ پڑھی جائے اور جہری نمازوں میں نہ پڑھی جائے ۔یہ حضرت اِمام مالک اورحضرت اِمام احمد بن حنبلکا مسلَک ہے ۔
اختلافِ روایات اور طریقہ اِستدلال کےفرق کی وجہ سے رائے کا مختلف ہوجانا اور کسی مسئلہ میں ایک سے زیادہ رائے کا پایا جانا کوئی معیوب اور بُرا فعل نہیں ،بلکہ یہ تو باعثِ رحمت اور موجب ثواب ہے ۔البتہ قبیح اور بُرا فعل یہ ہے کہ اپنی رائے کو حتمی اور حرفِ آخر سمجھ کر دوسروں کو اہلِ باطل، اور اُن کی نمازوں کو فاسد اور غیر معتبر قرار دیا جائے،کیونکہ یہ نقل و عقل کے کسی پیمانے پر درست نہیں اور نہ ہی یہ رَوِش اور