حضرت سفیان ثوری اور اہلِ کوفہ کا قول ہے۔(یعنی نماز میں صرف تکبیرِ تحریمہ کے وقت رفعِ یدین کیا جائے گا )۔(ترمذی،رقم الحدیث:257)
(23)ـــتئیسویں دلیل :اِمام ابوحنیفہ کا مسلَک:
فقہِ حنفی کے سب سے بڑے ناقل حضرت اِمام محمّد اپنی شہرہ آفاق کتاب ”مؤطاء اِمام محمد“ میں لکھتے ہیں:”فَأمَّا رَفْعُ الْيَدَيْنِ فِي الصَّلَوةِ فَاِنَّهُ يَرْفَعُ الْيَدَيْنِ حَذْوَ الْأُذُنَيْنِ فِي ابْتِدَاءِ الصَّلَوةِ مَرَّةً وَاحِدَةً ثُمَّ لَا يَرْفَعُ فِي شَيْء مِّنَ الصَّلَوةِ بَعْدَ ذٰلِكَ وَهٰذَا كُلُّهُ قَولُ أَبِيْ حَنِيْفَةَ رَحِمَهُ اللهُ“ اور بہرحال نماز میں رفعِ یدین کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ صرف ایک مرتبہ نماز کی اِبتداء میں ہاتھوں کو کانوں تک اُٹھائے، پھر اس کے بعد نماز میں کسی بھی جگہ ہاتھ نہ اُٹھائے۔ اور یہ سب حضرت اِمام ابوحنیفہ کا قول ہے۔(مؤطا اِمام محمّد:90 ،91،میزان)
٭رفعِ یدین کی روایات قابلِ عمل کیوں نہیں؟٭
ائمّہ اربعہ میں دو بڑے اور مشہور اِمام یعنی اِمام اعظم ابوحنیفہاور حضرت اِمام مالک رکوع میں جاتے ہوئے اور رکوع سے کھڑے ہوتے ہوئے رفعِ یدین کے قائل نہیں،اور اُنہوں نے رفعِ یدین کی روایات کو اِس لئے ترجیح نہیں دی کیونکہ وہ احادیث متن کے اعتبار سےمضطرب(مختلف) ہونے کی وجہ سےقابلِ اِستدلال نہیں ، چنانچہ رفعِ یدین کی ”أصح مافی الباب “یعنی سب سے زیادہ صحیح روایت جس کو رفعِ یدین کے بارےمیں سب سے مضبوط اور ٹھوس دلیل قرار دیا جاتا ہے،یہاں تک کہ اُسے ”حجۃ اللہ علی الخلق“کادرجہ دیا گیا ہے،وہ حضرت عبد اللہ بن عمرکی ایک روایت ہے ،جسے اِمام بخاری نے نقل کیا ہے،ملاحظہ فرمائیے :