نماز پڑھاتے تھے، پس5 ترویحے یعنی 20رکعتیں پڑھاتے تھے۔
(13)ـــتیرہویں دلیل:حضرت ابنِ ابی مُلیکہ کا عَمل:
”عَنْ نَافِعِ بْنِ عُمَرَ، قَالَ:كَانَ ابْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ يُصَلِّي بِنَا فِي رَمَضَانَ عِشْرِيْنَ رَكْعَةً“۔(مصنّف ابن ابی شیبہ :7683)
ترجمہ: حضرت نافع بن عمر فرماتے ہیں کہ حضرت ابنِ ابی مُلیکہ ہمیں رَمضان میں 20 رکعت تَراویح پڑھایا کرتے تھے۔
(14)ـــچودہویں دلیل:فقہاء کرام اور محدّثینِ عظام کے فتاویٰ:
٭اِمام شافعی فرماتے ہیں:
”وَرَأَيْتُهُمْ بِالْمَدِينَةِ يَقُومُونَ بِتِسْعٍ وَثَلَاثِينَ، وَأَحَبُّ إلَيَّ عِشْرُونَ؛ لِأَنَّهُ رُوِيَ عَنْ عُمَرَ وَكَذَلِكَ يَقُومُونَ بِمَكَّةَ وَيُوتِرُونَ بِثَلَاثٍ“
میں نے لوگوں کو مدینہ منوّرہ میں دیکھا ہے کہ وہ39 رکعات تَراویح پڑھتے ہیں ،جبکہ میرے نزدیک پسندیدہ یہ ہے کہ20 رکعت پڑھی جائے،اِس لئے کہ یہ حضرت عُمر سے مَروی ہے، اور مکہ مکرّمہ کے رہنے والے بھی 20رکعت تَراویح اور 3رکعت وِتر پڑھتے ہیں ۔(کتاب الاُمّ:1/167)
٭اِمام ترمذیفرماتے ہیں :
”وَأَكْثَرُ أَهْلِ العِلْمِ عَلَى مَا رُوِيَ عَنْ عُمَرَ، وَعَلِيٍّ، وَغَيْرِهِمَا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِشْرِينَ رَكْعَةً“
یعنی تراویح کے20 رکعت ہونے پر اکثر اہلِ علم کا عمل ہے ، جیسا کہ حضرت علی، حضرت عمر اور دیگر حضرات صحابہ کرام سے مَروی ہے۔(ترمذی:806)