حدیث کی واضح نصوص ،نیز جمہور صحابہ کرام اور تابعین کا عمل بھی پیش کیا گیا ہے جس کے ذریعہ مسئلہ کو بہت اچھی طرح سمجھا جاسکتا ہے ، چنانچہ ملاحظہ فرمائیے :
(1)ـــپہلی دلیل:قرآن کریم:
قرآن کریم میں اللہ تبارک و تعالیٰ کا اِرشاد ہے:
﴿وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُون﴾
ترجمہ: اور جب قرآن پڑھاجائے تو اُس کو کان لگاکر سنو اور خاموش رہو تاکہ تم پر رحمت ہو۔(آسان ترجمہ قرآن۔الأعراف:204)
آیتِ مذکورہ سے معلوم ہواکہ اِمام کی قراءت کے وقت ،خواہ وہ سورۃ الفاتحہ پڑھ رہا ہو یا اُس کے بعدکی کوئی سورت،مقتدی کو توجّہ کے ساتھ اِمام کی تلاوت سننا اور خاموش رہنا چاہیئے،چنانچہ آیت کے عُموم کا بھی یہی تقاضا ہے اور جمہور صحابہ و تابعین کی تفسیر سےبھی اِسی کی وضاحت ہوتی ہے، چنانچہ ذیل میں اس کی تفصیل ملاحظہ فرمائیے:
(1)حضرت عبداللہ بن مسعودکی تفسیر:
صَلَّى ابْنُ مَسْعُودٍ،فَسَمِعَ نَاسًا يَقْرَءُونَ مَعَ الْإِمَامِ، فَلَمَّا انْصَرَفَ قَالَ:أَمَا آنَ لَكُمْ أَنْ تَفْهَمُوا؟ أَمَا آنَ لَكُمْ أَنْ تَعْقِلُوا؟{وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا}كَمَا أَمَرَكُمُ اللَّهُ۔ (تفسیر ابن کثیر:3/536)
ترجمہ:حضرت عبد اللہ بن مسعودنے نماز پڑھائی اور چند آدمیوں کو امام کے ساتھ قراءت کرتے ہوئے سنا ،جب وہ نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا: کیا تمہارے لئے ابھی وقت نہیں آیا کہ تم سمجھ جاؤ ؟ کیا تمہارے لئے ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ تم عقل سے کام لو؟(یاد رکھو!)جب قرآن کریم کی تلاوت ہوتی ہو تو تم اس کی جانب متوجہ ہو اور