(3)ـــتیسری دلیل:مُسلم شریف:
(1)”إِنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَطَبَنَا فَبَيَّنَ لَنَا سُنَّتَنَا وَعَلَّمَنَا صَلَاتَنَا. فَقَالَ:إِذَا صَلَّيْتُمْ فَأَقِيمُوا صُفُوفَكُمْ ثُمَّ لْيَؤُمَّكُمْ أَحَدُكُمْ، فَإِذَا كَبَّرَ فَكَبِّرُوا وَإِذْ قَالَ{غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَاالضَّالِّينَ}،فَقُولُوا:آمِينَ،يُجِبْكُمُ اللهُ………وَفِي حَدِيثِ جَرِيرٍ،عَنْ سُلَيْمَانَ، عَنْ قَتَادَةَ مِنَ الزِّيَادَةِ«وَإِذَا قَرَأَ فَأَنْصِتُوا»“۔
ترجمہ:حضرت ابوموسی اشعریفرماتے ہیں کہ آپﷺنے ہم سے خطاب کرتے ہوئے ہمارے لئے سنّت کے اُمور کو واضح فرمایا اور ہمیں ہماری نماز (باجماعت) کا طریقہ بتلایا اور یہ فرمایا کہ : جب تم نماز پڑھنے لگو تو اپنی صفوں کو درست کرلو،پھر تم میں سے کوئی شخص تمہاری اِمامت کرے ، اور جب وہ تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو اور جب وہ ﴿غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ﴾ کہے تو تم ”آمِينَ“ کہو، اللہ تعالیٰ تمہاری دعاء قبول فرمائیں گے۔حضرت سلیمان التیمی حضرت قتادہ سے (مذکورہ حدیث میں)یہ زیادتی نقل کرتے ہیں کہ :جب اِمام قراءت کرے تو تم خاموش رہو۔ (مسلم:404)
وضاحت:مذکورہ حدیث میں جماعت کے ساتھ ہونے والی نماز میں اِمام اور مقتدی کی ذمّہ داریوں کو واضح کیا گیا ہے ، یعنی: جب اِمام ”اللہ أکبر“ کہے تو تم بھی ”اللہ أکبر“کہو، جب وہ قراءت کرے تو تم خاموش رہو اور جب وہ فاتحہ ختم کرے تو تم ”آمین “کہو۔اگر سورۃ الفاتحہ کا پڑھنا مقتدی کیلئے لازم ہوتا تو جیسے تکبیر میں کہا گیا ہے کہ اِمام کے تکبیر کہنے پر تم بھی تکبیر کہو اِسی طرح قراءت کے موقع پر بھی یہ کہا جاتا