بھی اِمام کے پڑھ لینے سے ہوجاتی ہے ،جیساکہ کئی احادیث میں اِس کی صراحت موجود ہے، چنانچہ مرفوع حدیث ہے:”مَنْ كَانَ لَهُ إِمَامٌ، فَقِرَاءَتُهُ لَهُ قِرَاءَةٌ“جو اِمام کے پیچھے کھڑا ہو تو اِمام کی قراءت ہی مقتدی کی قراءت ہوتی ہے۔(مسند احمد:14643)
لہٰذا نبی کریمﷺکے قول و فعل دونوں ہی اِس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ مقتدی کیلئے اِمام کے پیچھے کوئی قراءت نہیں ۔
(8)ـــآٹھویں دلیل:مؤطا اِمام مالک:
(1)”عَنْ نَافِعٍ، أَنَّ عَبْدَ اللهِ بْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللهُ عَنهُمَا كَانَ إِذَا سُئِلَ: هَلْ يَقْرَأُ أَحَدٌ خَلْفَ الإِمَامِ؟ يقول: إِذَا صَلَّى أَحَدُكُمْ خَلْفَ الإِمَامِ فَحَسْبُهُ قِرَاءَةُ الإِمَامِ، وَإِذَا صَلَّى وَحْدَهُ فَلْيَقْرَأْ، قَالَ: وَكَانَ عَبْدُ اللهِ بْنُ عُمَرَ لاَ يَقْرَأُ خَلْفَ الإِمَامِ“۔ (مؤطاء مالک:251)
ترجمہ: حضرت عبد اللہ ابن عمر سے جب امام کے پیچھے قرأت کرنے کے بارے میں پوچھا جاتا تو فرماتے :جب تم میں سے کوئی شخص امام کے پیچھے نماز پڑھے تو اُس کے لئے امام کی قرأت ہی کافی ہے ، اور جب اکیلے نماز پڑھے تو اُسے قرأ ت کرنی چاہیے۔حضرت نافعفرماتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ ابن عمر اِمام کے پیچھے قرأت نہیں کیا کرتے تھے۔
(2)”عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ انْصَرَفَ مِنْ صَلاَةٍ جَهَرَ فِيهَا بِالْقِرَاءَةِ، فَقَالَ: هَلْ قَرَأَ مَعِي مِنْكُمْ أَحَدٌ آنِفًا؟ فَقَالَ رَجُلٌ:نَعَمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنِّي أَقُولُ مَا لِي أُنَازَعُ الْقُرْآنَ، قال: فَانْتَهَى النَّاسُ عَنِ الْقِرَاءَةِ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ