ہوئی ہے ۔اور حضرت زید بن اَسلم اور ابو العالیہ فرماتے ہیں کہ لوگ (نماز میں)اِمام کے پیچھےقراءت کیا کرتے تھے پس یہ آیت نازل ہوئی :﴿وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ﴾ اور جب قرآن پڑھاجائے تو اُس کو کان لگاکر سنو اور خاموش رہو تاکہ تم پر رحمت ہو۔اِمام احمد بن حنبل فرماتے ہیں کہ لوگوں نے اِس آیت کے بارے میں اس پر اِجماع اوراتفاق کیا ہے کہ یہ آیت نماز کے بارے میں ہے، اور اِس لئے بھی کہ یہ ایک ایسا عام حکم ہے جس کے عُموم میں خود نماز بھی داخل ہے۔
علاوہ ازیں اِمام قرطبینے بھی اِس پر اہلِ تفسیر کا اِجماع اور اتفاق نقل کیا ہے، چنانچہ وہ فرماتے ہیں:”أَجْمَعَ أَهْلُ التَّفْسِيرِ أَنَّ هَذَا الِاسْتِمَاعَ فِي الصَّلَاةِ الْمَكْتُوبَةِ وَغَيْرِ الْمَكْتُوبَةِ“تمام اہلِ تفسیر اِس پر متفق ہیں کہ یہ قرآن کریم کو کان لگاکر سننے کا حکم فرض اور غیر فرض تمام نمازوں میں ہے۔(قرطبی:7/354)
سورۃ الفاتحہ بھی قرآن کریم ہی کی قراءت ہے:
یہ بات واضح رہنی چاہیئے کہ نماز میں جو سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کی جاتی ہےوہ بھی قرآن کریم ہی کی تلاوت ہے،اُسے قراءت نہ سمجھنا اور یہ کہنا کہ مذکورہ بالا آیت میں قرآن کریم کی قراءت کے وقت خاموشی سے سننے کا جو حکم دیا گیا ہے اُس سے مُراد صرف سورۃ الفاتحہ کے بعد والی قراءت ہے،سورۃ الفاتحہ اس میں شامل نہیں،یہ کہنا ہرگز درست نہیں،اِس لئے کہ جمہور مفسرین،فقہاء و محدثین کےنزدیک سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کرنا بھی قرآن کریم ہی کی قراءت کرنا ہے،اسے قرآن کریم سے الگ نہیں کیا