سن لیا تو یہ درست نہ ہوگا کیونکہ یہ کیسے مُمکن ہوسکتا ہے کہ پہلی صف میں دور تک دائیں بائیں جانب کےتمام لوگوں نے تو سن لیا ہو لیکن اِمام کے بالکل پیچھے قریب کے
دوسری صف میں کھڑے ہوئےلوگوں تک بھی آواز نہ پہنچی ہو ۔اِسی طرح ایک روایت میں ہے:”حَتَّى يُسْمِعَ مَنْ يَلِيهِ“یعنی آپﷺاِتنی آواز سے آمین کہتے کہ اپنے سے متصل لوگوں کوسنادیا کرتے تھے۔(مصنّف عبد الرزاق:2632)
پس اِن روایات کی روشنی میں روایاتِ جہریہ کا مطلب بھی ”جہرِ خفیف“ہی لیا جائے گا اوریہ نبی کریمﷺکایہ عمل بھی لوگوں کو تعلیم دینے اور سکھانے کیلئےتھا ۔پس اِس طرح روایات کا باہمی تضاد بھی باقی نہ رہے گا ،حضرات صحابہ کرام کے عمل کی اتباع بھی ہوجائے گی اور دُعاء کا جو اصل ادب ہے اُس کی رعایت بھی ہوسکے گی ۔
﴿حضرت شُعبہکی روایت پر وارد ہونے والے اِشکالات اور اُن کے جوابات﴾
اِمام ترمذینے وائل بن حجر کی مذکورہ روایت جوکہ اِمام شُعبہنے نقل کی ہے اسے اِمام شُعبہ کا وہم قرار دیا ہےاور اس کے مدِّ مقابل حضرت سفیان کی روایت نقل کرکے اُس کو أصح یعنی زیادہ صحیح قرار دیا ہےجس میں”وَمَدَّ بِهَا صَوْتَهُ“ کے الفاظ مَنقول ہیں۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ اِمام شُعبہ بخاری و مُسلم اورسنن اربعہ کے مشہور حافظ،متقن اور بالاتفاق ثقہ راوی ہیں،یہاں تک کہ اُنہیں أمیر المؤمنین فی الحدیث کا لقب بھی دیا گیا ہے۔اور ثقہ راوی کی جانب سے ہونے والی زیادتی خواہ وہ سند میں ہو یا متن میں ،فقہاء و محدّثین سب کے نزدیک مقبول اور قابلِ تسلیم ہوتی ہے ، پس ایسے میں شُعبہ جیسے ثقہ راوی کی زیادتی کیوں قبول نہیں ہوگی۔