ترجمہ:حضرت عطاء خراسانیفرماتے ہیں کہ حضرت عثماننے حضرت معاویہکو لکھا کہ جب تم نماز کیلئے کھڑے ہو تو اس کی طرف کان لگاکر سنو اور خاموش رہو،کیونکہ میں نے نبی کریمﷺسے سنا ہے،آپ اِرشاد فرمارہے تھے:جو شخص خاموش رہے اور اُسے سنائی نہ دے اس کیلئے ایسا ہی اجر ہے جیساکہ اُس شخص کیلئے اجر ہے جو سنتے ہوئے خامو ش رہے۔
فائدہ:
حضرت عثمانکی مذکورہ بات سے یہ اِشکال بھی دور ہوگیا جو بعض لوگ کرتے ہیں کہ جب سری نمازوں میں اِمام کے پیچھے سنائی ہی نہ رے رہا ہو تو خاموش کھڑے رہنے کا کیا فائدہ ؟ کیا یہ فائدہ کم ہے کہ اُس کو سننے والے کے اجر ہی کی طرح اجر مل رہا ہے!!
(17)ـــسترہویں دلیل:حضرت علیکا فتویٰ:
(1)”عَنِ ابْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ عَلِيٍّ قَالَ:«مَنْ قَرَأَ خَلْفَ الْإِمَامِ فَقَدْ أَخْطَأَ الْفِطْرَةَ»“۔(مصنّف ابن ابی شیبہ:3781)
ترجمہ:حضرت علی کرّم اللہ وجہہ سے مَروی ہے ،وہ فرماتے ہیں :جس نے اِمام کے پیچھے قراءت کی اُس نے فطرت کو کھودیا۔
(2)”عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَجْلَانَ قَالَ: قَالَ عَلِيٌّ:مَنْ قَرَأَ مَعَ الْإِمَامِ فَلَيْسَ عَلَى الْفِطْرَةِ“۔(مصنّف عبد الرزاق:2806)
ترجمہ:حضرت مُحمّد بن عجلان فرماتے ہیں کہ حضرت علی کرّم اللہ وجہہ نے فرمایا:جس
نے اِمام کے ساتھ قراءت کی وہ فطرت پر نہیں ہے۔